کیا بری طرح بھوں مٹکتی ہے
کیا بری طرح بھوں مٹکتی ہے
کہ مرے دل میں آ کھٹکتی ہے
زلف کی شان مکھ اوپر دیکھو
کہ گویا عرش میں لٹکتی ہے
اب تلک گرچہ مر گیا فرہاد
روح پتھر سیں سر لٹکتی ہے
دل کبابوں میں کون کچا ہے
عشق کی آگ کیوں چٹکتی ہے
آبروؔ جا پہنچ کہ پیاسی زلف
ناگنی کی طرح بھٹکتی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |