کیا بنائے صانع قدرت نے پیارے ہاتھ پاؤں

کیا بنائے صانع قدرت نے پیارے ہاتھ پاؤں
by آغا اکبرآبادی

کیا بنائے صانع قدرت نے پیارے ہاتھ پاؤں
نور کے سانچے میں ڈھالے ہیں تمہارے ہاتھ پاؤں

ضعف پیری چھا گیا زور جوانی چل بسا
اب چلیں بتلائیے کس کے سہارے ہاتھ پاؤں

مچھلیاں بازو پہ ابھریں ساق پا شمعیں بنیں
خوب صاحب نے نکالے اب تو بارے ہاتھ پاؤں

فوق ہیرے سے نہیں ہے میری جاں یاقوت کو
کیوں رنگے ہیں آپ نے مہندی سے سارے ہاتھ پاؤں

مانی و بہزاد نے ملک عدم کی راہ لی
وہ کمر مطلق نہ پائی لاکھ مارے ہاتھ پاؤں

ہم نہ کہتے تھے کہ ہر دم شوخیاں اچھی نہیں
آخرش مہندی نے باندھے لو تمہارے ہاتھ پاؤں

ہاتھا پائی میں بھی ہم چوکے نہ اپنے کام سے
وصل کی شب یار نے کیا کیا نہ مارے ہاتھ پاؤں

ہے ضعیفی میں بھی ہم کو نوجوانی کا خیال
دل نہیں ہارا ہے اب تک گو کہ ہارے ہاتھ پاؤں

غیر کی دھمکی سے ہم ڈر جائیں یہ ممکن نہیں
ایسے بودے بھی نہیں ہیں کچھ ہمارے ہاتھ پاؤں

معدن یاقوت کو دریا بنایا آپ نے
مہندی مل کر دھوئے جب دریا کنارے ہاتھ پاؤں

اس بڑھاپے میں بھی آغاؔ سو جواں میں ایک ہے
گو ضعیفی آ گئی پر ہیں کرارے ہاتھ پاؤں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse