کیا بھلا شیخ جی تھے دیر میں تھوڑے پتھر
کیا بھلا شیخ جی تھے دیر میں تھوڑے پتھر
کہ چلے کعبہ کے تم دیکھنے روڑے پتھر
اے بسا کہنہ عمارات مقابر جن کے
لوگوں نے چوب و چگل کے لیے توڑے پتھر
جاؤ اے شیخ و برہمن حرم و دیر کو تم
بھائی بیزار ہیں ہم ہم نے یہ چھوڑے پتھر
کبھی دل ہائے بتاں تجھ سے پسیجیں اے اشک
تو یہ ہم جانیں کہ بس تو نے نچوڑے پتھر
نہ چرے نوک سے نشتر کے عیاذاً باللہ
کوئی عشاق کے تھے چھاتی کے پھوڑے پتھر
کوس بیٹھیں فقرا اہل دول کو تو ابھی
ان کے ہاتھی ہوں پہاڑ اور یہ گھوڑے پتھر
گر سگ گرسنہ لے شوم کے مطبخ کی باس
تو بھلا ہڈی کی جا کیا وہ بھنبوڑے پتھر
نہ ہنسا میں جو ہنسانے سے شب ان کی تو کہا
تجھے قربان کروں ہائے نگوڑے پتھر
ایک غزل اور سنا دے ہمیں انشاؔ ہر چند
تو نے اس میں بھی کسی ڈھب کے نہ چھوڑے پتھر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |