کیا جب صبر فرقت میں تو پھر ذکر بتاں کیسا
کیا جب صبر فرقت میں تو پھر ذکر بتاں کیسا
بہ آہ و زاریاں کیسی ہیں یہ شور فغاں کیسا
بگولے کی طرح سے خاک اڑانا ہے مقدر میں
وطن کیا خانماں برباد کا تیرے مکاں کیسا
ہوا فکر و تصور سے وہ تصویر صنم جب تو
بگڑ جانا ہے اب مجھ سے دل نا مہرباں کیسا
قفس میں بند ہوں میں گو قفس ہو شاخ توبہ پر
یہ میرے واسطے قید محن ہے بوستاں کیسا
یہ ثابت ہو چکا تم پر نہیں ڈرتے یہ مرنے سے
لیا کرتے ہو جاں بازوں کا پھر تم امتحاں کیسا
لحد میں چین ملتا ہے کہاں زحمت نصیبوں کو
جھپکتی ہی نہیں آنکھیں مری خواب گراں کیسا
قدم رکھنا زمیں پر ضعف سے مجھ کو ہوا مشکل
کیا درد جگر نے آہ مجھ کو ناتواں کیسا
اندھیرے ہو گئے ہیں دونوں عالم میری نظروں میں
زمیں کیسی ہے میرے واسطے اور آسماں کیسا
جمیلہؔ عالموں سے صاف کہہ دے تجھ کو ڈر کس کا
مکان دل مقام کبریا ہے لا مکاں کیسا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |