کیا دن تھے وہ جو واں کرم دلبرانہ تھا
کیا دن تھے وہ جو واں کرم دلبرانہ تھا
اپنا بھی اس طرف گزر عاشقانہ تھا
مل بیٹھنے کے واسطے آپس میں ہر گھڑی
تھا کچھ فریب واں تو ادھر کچھ بہانہ تھا
چاہت ہماری تاڑتے ہیں واں کے تاڑ باز
تس پر ہنوز خوب طرح دل لگا نہ تھا
کیا کیا دلوں میں ہوتی تھی بن دیکھے بے کلی
ہے کل کی بات حیف کہ ایسا زمانہ تھا
اب اس قدر ہوا وہ فراموش اے نظیرؔ
کیا جانے وہ معاملہ کچھ تھا بھی یا نہ تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |