کیا غازیانِ فوجِ خدا نام کر گئے

کیا غازیانِ فوجِ خدا نام کر گئے
by میر انیس
294939کیا غازیانِ فوجِ خدا نام کر گئےمیر انیس

کیا غازیانِ فوجِ خدا نام کر گئے
لاکھوں سے تشنہ کام لڑے کام کر گئے
امت کی مغفرت کا سر انجام کر گئے
فیض اپنا مثلِ ابر کرم عام کر گئے
پڑھتے ہیں سب درود جو ذکر ان کے ہوتے ہیں
ایسے بشر وہ تھے کہ ملک جن کو روتے ہیں

دیندار و سرفروش و شجاع و خوش اعتقاد
ہاتھوں میں تیغیں اور دلوں میں خدا کی یاد
زخموں کو نخلِ قد پہ وہ سمجھے گلِ مراد
مرادنگی یہ پیاس میں فاقوں میں یہ جہاد
تیغوں سے بند کون سا ان کا کٹا نہ تھا
پر معرکے سے پاؤں کسی کا ہٹا نہ تھا

برسوں رہے گا چرخ میں، گر آسمانِ پیر
لیکن نظر نہ آئے گا ان کا کہیں نظیر
گورے نہ ان کے پاؤں، نہ روئے مہِ منیر
خورشید جن کے سامنے اک ذرۂ حقیر
پرخوں قبائیں جسم میں، سینے تنے ہوئے
پہنچے ریاضِ خلد میں دولہا بنے ہوئے

رستم اٹھا نہ سکتا تھا سر ان کے سامنے
شیروں کے کانپتے تھے جگر ان کے سامنے
پھیکی تھی روشنیِٔ قمر ان کے سامنے
اڑتا تھا رنگ روئے سحر، ان کے سامنے
بخشا تھا نور، حق نے ہر اک خوش صفات کو
ہوتا تھا دن، جو گھر سے نکلتے تھے رات کو

پیشانیوں پہ جلوہ نما اختر سجود
دیکھیں جو ان کا نور تو قدسی پڑھیں درود
رخ سے عیاں جلال و جوانمردی و نمود
شیدائے آل، شیفتۂ واجب الوجود
جینے کی شاہ دیں کو دعا دے کے مر گئے
ایماں کے آئینہ کو جِلا دے کے مر گئے

تاثیر کر گئی تھی انہیں صحبتِ امام
تھا نزع میں بھی خشک لبوں پہ خدا کا نام
لبریز تھے محبت حیدرؔ سے دل کے جام
ذی قدر، ذی شعور، دلاور خجستہ کام
لشکر جو ان پہ ٹوٹ پڑے شام و روم کے
تلواریں کھائیں جسم پہ کیا جھوم جھوم کے

لاکھوں میں انتخاب ہزاروں میں لا جواب
تھا خشک و تر پہ جن کا کرم صورتِ سحاب
وہ نور، وہ جلال، وہ رونق، وہ آب و تاب
زہراؔ کے گھر کے چاند، زمانے کے آفتاب
بس یک بہ یک جہاں میں اندھیرا سا چھا گیا
دن بھی ڈھلا نہ تھا کہ زوال ان پہ آ گیا

گل ہو گئے عقیلؔ کی تربت کے جب چراغ
جعفر کے لاڈلوں نے دیئے شہ کے دل کو داغ
ماتم سے بھانجوں کے ہوا تھا نہ انفراغ
پامال ہو گیا، حسنِؔ مجتبیٰ کا باغ
لاشے اٹھائے جنگ کرے یا بکا کرے
جس پر گریں یہ کوہ مصیبت وہ کیا کرے

صدمہ یہ تھا کہ لٹنے لگی دولتِ پدر
نکلے نبرد کو اسد اللہ کے پسر
مارے گئے جہاد میں جس دم وہ شیر نر
رخصت ہوئے حسینؔ سے عباسِؔ نام ور
ددریا بہے لہو کے بڑا کشت و خوں ہوا
ڈھلتی تھی دوپہر کہ علم سر نگوں ہوا

پیری میں قہر ہے، خبر مرگ نوجواں
ریتی پہ تھر تھرا کے گرے شاہِ انس و جاں
نکلیں سروں کو پیٹتی، خیمے سے بیبیاں
تھا خانۂ علی میں تلاطم کہ الا ماں
یوں گھر الٹ پلٹ تھا امامِ حجاز کا
جس طرح ٹوٹ جاتا ہے لنگر جہاز کا

غل تھا کہ خوں میں بھر گیا سقائے اہل بیت
دنیا سے کوچ کر گیا، سقائے اہل بیت
ہم لٹ گئے گذر گیا سقائے اہل بیت
فریاد ہے کہ مر گیا، سقائے اہل بیت
ہے ہے کہاں سے اپنے بہشتی کو لائیں گے
سوکھی زبان، اب کسے بچے دکھائیں گے

ہلتا تھا خیمہ روتے تھے یوں اہل بیت شاہ
صدمے سے حالِ زوجۂ عباسؔ تھا تباہ
چلاتی تھی کہ نہر کی مجھ کو بتاؤ راہ
لوٹی گئی میں دشت پُر آفت میں آہ آہ
خم تھے گرا تھا کوہِ مصیبت حسینؔ پر
ماتم تھا بیبیوں میں سکینہؔ کے بین پر

ماتم ادھر تھا، جشن میں تھے اہل شر اُدھر
بجتے تھے شادیانۂ فتح و ظفر اُدھر
انعام بانٹتا تھا ہر اک کو عمر ادھر
روتے تھے دیکھ دیکھ کے حضرت اِدھر اُدھر
غل تھا کہ بس حسینؔ بہت روئے بھائی کو
کوئی جواں ہو اور تو بھیجو لڑائی کو

باقی نہیں کوئی تو وِغا کو خود آیئے
حیدرؔ کی ذوالفقار کے جوہر دکھایئے
زخمِ سنان و خنجر و شمشیر کھایئے
گرمی بڑی ہے آج لہو میں نہایئے
آمادہ ہم تو دیر سے بہرِ ستیز ہیں
تیغیں بھی ہیں اُپی ہوئی خنجر بھی تیز ہیں

کاٹے ہیں جس نے بازوئے لخت دلِ امیر
ہے خوب آبدار، وہ شمشیرِ بے نظیر
چھیدا ہے جس سے مشک کو موجود ہے وہ تیر
ہر گرز وہ ہے، ضرب سے جس کی ہوئے اخیر
تڑپے تھے جس سے مشک کو دانتوں سے چھوڑ کر
برچھی یہ ہے جو نکلی تھی پہلو کو توڑ کر

صابر بڑے ہیں آپ تو یا شاہِ انس و جاں
اک بھائی کے فراق میں یہ نالہ و فغاں
رونے سے جی اٹھیں گے نہ عباسِ نوجواں
حضرت پکارتے ہیں کسے، بھائی اب کہاں
ملتا ہے کب جہاں میں بھلا جو گزر گیا
اب فکر اپنی کیجئے وہ شیر مر گیا

اکبر نے کی غضب کی نظر سوئے فوج شام
کانپے یہ غیظ سے کہ اگلنے لگی حسام
کی عرض ہاتھ جوڑ کے اے قبلۂ انام
سنتے ہیں آپ لشکرِ اعدا کا یہ کلام
خوں تن میں جوش کھاتا ہے ہنگام جنگ ہے
مولا بس اب تو حوصلۂ صبر تنگ ہے

ان کے کلام سننے کی کس کے جگر میں ہے تاب
خادم زبانِ تیغ سے دے گا انہیں جواب
کیا اپنے دل میں سمجھے ہیں، یہ خانماں خراب
نعرہ کروں تو شیر کا زہرہ ہو آب آب
آداب شاہ سے نہیں ہم بول سکتے ہیں
زخمِ جگر پہ اب تو نمک یہ چھڑکتے ہیں

ہم کو یہ طعن و طنز کی باتیں نہیں پسند
کوفے میں لیں گے دم جو اٹھائیں گے پھر سمند
ہونٹوں پہ غم سے اب ہے، یہاں جانِ دردمند
کاٹیں تبر سے، تیغ سے خنجر سے بند بند
ہنس ہنس کے جسم پر، تبر و تیر کھائیں گے
تیغِ زباں کے زخم اٹھائے نہ جائیں گے

گھبرا کے دیکھنے لگے بیٹے کے منہ کو شاہ
فرمایا خیر کہہ لیں جو کہتے ہیں روسیاہ
کیوں کانپتے ہو غیظ سے، اے میرے رشک ماہ
لازم ہے صبر و شکر کہ راضی رہے الٰہ
غصہ اسی طرح اگر آئے گا آپ کو
خنجر کے نیچے دیکھو گے کس طرح باپ کو

برہم نہ ہو تمہیں، سر شبیرؔ کی قسم
لو گھر میں جاؤ خیر سمجھ لیں گے ان سے ہم
دیکھو ہمیں کہ بھائی کے بازو ہوئے قلم
تلوار، دل پہ چل گئی، مارا نہ ہم نے دم
سب جل کے خاک ہوں جو ابھی بد دعا کروں
پر امت نبی ہے، بجز صبر کیا کروں

یہ سن کے زرد ہو گئے ہم شکلِ مصطفی
رو کر کہا یہ کرتے ہیں ارشاد آپ کا
وہ وقت، وہ گھڑی، نہ دکھائے ہمیں خدا
بابا نہ ہو تو بیٹے کے جینے کا کیا مزہ
آمادۂ فنا ہیں، خوشی دل سے فوت ہے
پھر خضرؔ کی حیات ملے گر تو موت ہے

کیا پہلے سر کٹایئے گا یا شہِ زماں
کس اشتیاق سے شہ دیں نے کہا کہ ہاں
آگے جو کچھ رضائے خدا، اے پدر کی جاں
جیتے ہیں پیر، سامنے مرتے ہیں نوجواں
دیکھو کہ چھوٹے بھائی کے ماتم میں روتے ہیں
پالا تھا جن کو ہم نے وہ دریا پہ سوتے ہیں

یہ کہہ کے اٹھ کھڑے ہوئے سلطانِ بحر و بر
پٹکے سے باندھنے لگے، ٹوئی ہوئی کمر
قدموں یہ گر پڑے، علیؔ اکبر بہ چشمِ تر
کی عرض رحم کیجئے، مر جائے گا پسر
آگے مرے جو ہو گی شہادت امام کی
دنیا میں آبرو نہ رہے گی غلام کی

چھوٹے تھے جو کہ سِن میں بڑے کر گئے وہ کام
یا شاہ کیا لڑائی کے قابل نہیں غلام
عمو کے خوں کا لیں گے لعینوں سے انتقام
ہم نے بھی تیغ باندھی ہے بچپن سے یا امام
عزت ملی ہے خلق میں صدقے سے آپ کے
بیٹا وہی جو رنج میں کام آئے باپ کے

انصاف آپ کیجئے یا سرورِ عرب
بیٹا تو گھر میں بیٹھے، لڑے باپ تشنہ لب
مارا گیا نہ آج، تو کل یہ کہیں گے سب
کیسا لہو سفید ہے، دنیا کا ہے غضب
سر کو کٹا کے باپ جہاں سے گزر گیا
بیٹا جوان، باپ کے آگے نہ مر گیا

بہرِ رسول رن کی رضا دیجئے مجے
صدقہ علی کا، اذن وغا دیجئے مجھے
مرتا ہوں یا امام، جلا دیجئے مجھے
یادِ خدا میں دل سے بھلا دیجئے مجھے
کھولیں کمر، حضور تو دل کو قرار ہو
کہہ دیجئے کہ جا! علیؔ اکبر نثار ہو

شہ نے کہا تمہیں مرے دل کی نہیں خبر
پیارے کہاں سے لاؤں میں اس طرح کا جگر
ہے باپ کو عصائے ضعیفی، جواں پسر
جب تم نہ ہو گے پاس تو مر جائے گا پدر
ایسے ہنسے نہ تھے کہ ہمیں تم رلاتے ہو
شادی کے دن جو آئے، تو مرنے کو جاتے ہیں

راتیں یہ عیش کی ہیں مرادوں کے ہیں یہ دن
پورے جواں نہیں، ابھی کیا ہے تمہارا سِن
اکبرؔ تری جوانی پہ روئیں گے انس و جن
کیوں کر قرار آئے گا ماں کو تمہارے بن
کیسی ہوا چلی، چمن روزگار میں
سید کا باغ لٹتا ہے فصلِ بہار میں

دیتا اگر تمہیں کوئی فرزند زوالجلال
ہوتی پدر کی قدر سمجھتے ہمارا حال
رخصت کا آپ سے یوں ہی کرتا وہ جب سوال
تب جانتے کہ دیتے اسے رخصتِ جدال
کیا جانے وہ مزاج سے اس کا ملا نہیں
اچھا سدھارو تم سے ہمیں کچھ گلا نہیں

تسلیم کر کے بولے علیؔ اکبرِ غیور
لاکھوں برس جہاں میں سلامت رہیں حضور
فرمایا شہ نے خیر اجل بھی نہیں ہے دور
برچھی لگا کے دل پہ خوشامد یہ کیا ضرور
تقریر میں پدر کو نہ اب بند کیجیے
خیمے میں جا کے ماں کو رضامند کیجیے

ہیں مبتلائے رنج بھلا کیا ہمارا پیار
تم سے جو پسر ہوں تو اس راہ میں نثار
ہر دم خدا سے خیر کا ہوں میں امیدوار
ہاں ماں نہ جانے دے تو مرا کیا ہے اختیار
سینے میں دل ہلے گا بدن تھرتھرائے گا
رخصت کا نام سنتے ہی غش اس کو آئے گا

سب جانتے ہیں جو ہے پھوپھی کو تمہاری چاہ
معلوم ہو گا جاؤ گے جب سوئے خیمہ گاہ
باہیں گلے میں ڈالے گی زینبؔ بہ اشک و آہ
قدموں پہ گر کے آپ کی ماں ہوگی سَدِ راہ
یہ مرحلہ بھی کم نہیں زنجیر و طوق سے
دونوں رضا جو دیں تو چلے جاؤ شوق سے

روتے ہوئے چلے علیؔ اکبر سوئے خیام
کانپا یہ دل کہ بیٹھ گئے خاک پر امام
روتا ہوا جو ڈیوڑھی سے آیا وہ نیک نام
دوڑی پسر کو دیکھ کے بانوئے تشنہ کام
دامن سے آ کے بالی سکینہؔ چمٹ گئی
زینبؔ بلائیں لے کے گلے سے لپٹ گئی

ماں گرد پھر کے بولی کہ اے میرے گلعذار
تم صبح سے گئے تھے اب آئے یہ ماں نثار
در پر تڑپ تڑپ کے میں جاتی تھی بار بار
کھولو بس اب کمر کہ مرا دل ہے بے قرار
گرمی یہ اور قحط کئی دن سے آب کا
رخ تمتما گیا ہے مرے آفتاب کا

تر ہے قبا پسینے میں پنکھا کوئی بلاؤ
سونلا گئے ہو دھوپ میں، واری ہوا میں آؤ
جھاڑوں ردا سے گرد میں، زلفوں کی، بیٹھ جاؤ
گھٹ جائے گا لہو مرا آنسو نہ تم بہاؤ
صدمہ جو دل پہ ہو اسے کچھ منہ سے کہتے ہیں
کیا ہے جو اشک نرگسی آنکھوں سے بہتے ہیں

صغراؔ کی تو وطن سے کچھ آئی نہیں خبر
جلدی کہو کہ منھ سے نکلتا ہے اب جگر
اکبرؔ نے عرض کی کہ ہیں سب خیر سے مگر
لٹتا ہے کوئی آن میں خیر النسا کا گھر
ملتی نہیں رضا ہمیں آنسو بہاتے ہیں
بابا گلا کٹانے کو میداں میں جاتے ہیں

اس وقت کس سے دردِ دل اپنا کہوں میں آہ
تم بھی ہو سدّ راہ پھوپھی بھی ہیں سدّ راہ
چھائی ہے واں گھٹا کی طرح شام کی سپاہ
اماں مدد کرو کہ کمر باندھتے ہیں شاہ
اب زندگی ہے تلخ بہت دق ہیں جان سے
الفت نے آپ کی ہمیں کھویا جہان سے

دیتے نہیں رضا جو امامِ فلک اساس
خاطر فقط یہ آپ کی ہے اور پھوپھی کا پاس
اب غیرِ یاس کوئی نہیں ان کے آس پاس
ناطاقتی ہے ضعف ہے فاقہ ہے اور پیاس
کیوں کر لڑیں گے وہ کہ سراپا ضعیف ہیں
پیری ہے دل ضعیف ہے اعضا ضعیف ہیں

عباس جب سے مر گئے روتے ہیں دم بہ دم
رخ زرد ہے کماں کی طرح ہو گئے ہیں غم
چلوں میں تیر جوڑے ہیں واں بانیٔ ستم
قرباں ہوں کس طرح پسرِ خاطر فاطمہؔ پہ ہم
سب روکتے ہیں رن کی طرف جائیں کس طرح
ماں کو پھوپھی کو بہنوں کو سمجھائیں کس طرح

بابا کا حکم ہے کہ رضا جا کے ماں سے لاؤ
راضی پھوپھی ہوں جب تو لڑو اور زخم کھاؤ
مرضی ہے آپ کی کہ مرے پاس سے نہ جاؤ
یا فاطمہؔ تمہیں علیؔ اکبر کے کام آؤ
چلنے لگیں نہ تیر شہِ مشرقین پر
نرغہ ہے ظالموں کا تمہارا حسینؔ پر

دیکھی گئی نہ ماں سے یہ بیتابیِٔ پسر
وارث کی بے کسی پہ لگا کانپنے جگر
ہاتھوں سے دل کو تھام کے بولی وہ نوحہ گر
دولت پہ فاطمہؔ کی تصدق تمام گھر
پہلے نہ کچھ کہا تھا نہ اب روکتی ہوں میں
روتے ہو کس لیے تمہیں کب روکتی ہوں میں

زہراؔ کے لال پر مرے مادر پدر نثار
عابدؔ نثار اصغرِؔ تشنہ جگر نثار
جانیں ہزار ہوں تو فدا لاکھ سر نثار
قربان گھر، کنیز تصدق، پسر نثار
کِسرائی گو کہ ہوں پہ بہو میں علیؔ کی ہوں
مانگو گے جو وہ دوں گی کہ لونڈی سخی کی ہوں

مجھ پر حوالہ کرتے ہیں گر شاہِ خوش خصال
رخصت نہ تم کو دوں یہ بھلا ہے مری مجال
صدقہ انہیں کا ہے کہ ملا تم سا نونہال
رخصت کا صدقے جاؤں پھوپھی سے کرو سوال
ہم سب کنیزیں بنتِ امیر عرب کی ہیں
اصغرؔ ہو یا کہ تم وہی مختار سب کی ہیں

کہنے کو یوں ہیں چاہنے والے تمہارے سب
لیکن ہے ان کے عشق سے نسبت کسی کو کب
دن کو انہوں نے دن کبھی جانا نہ شب کو شب
لیجے انہیں سے آپ کو جس شے کی ہے طلب
مجھ سے نہ کچھ نہ سید عالی سے پوچھیے
گر پوچھیے تو پالنے والی سے پوچھیے

روتے ہوئے گئے علیؔ اکبر پھوپھی کے پاس
دیکھا کہ غش پڑی ہے زمیں پر وہ حق شناس
زانو پہ سر لیے ہوئے کبراؔ ہے بے حواس
اس حال میں بھی لب پہ یہی ہے کلام یاس
اب تاب و طاقت جسد و روح و دل گئی
کیوں صاحبو! رضا علیؔ اکبر کو مل گئی

اکبرؔ سے مجھ کو یہ نہ توقع تھی ہے غضب
اتنا نہیں خیال کہ ہے کون جاں بہ لب
اس گُل نے ہائے میری ریاضت بھلائی سب
نامِ خدا جواں ہوئے کیا ہم سے کام اب
ہیں محو رن کے شوق میں رخصت کے دھیان میں
سچ ہے کسی کا کون ہوا ہے جہان میں

یا بے ہمارے چین نہ آتا تھا کوئی دم
مالک اب اور ہو گئے کوئی ہوئے نہ ہم
کیا دخل تھا جو ڈیوڑھی سے باہر رکھیں قدم
ہے ہے وہ میرا دردِ مصیبت وہ رنج و غم
جاگی ہوں میں جو چونک کے راتوں کو روئے ہیں
پوچھو تو کس کی چھاتی پہ بچپن میں سوئے ہیں

کنگھی کسی کے ہاتھ کی بھاتی نہ تھی کبھی
بے میرے لیٹے نیند انہیں آتی نہ تھی کبھی
بے ان کی ماں کی قبر پہ جاتی نہ تھی کبھی
روئیں پسر، پہ ان کو رلاتی نہ تھی کبھی
میرے سوا کسی کو کبھی جانتے نہ تھے
جو تھی سو میں تھی ماں کو تو پہچانتے نہ تھے

ہر چند دونوں تھے مرے فرزند خورد سال
پر اِن کے آگے اُن کا مجھے کچھ نہ تھا خیال
راتوں کو جب لپٹتے تھے مجھ سے وہ نونہال
میں کہتے تھی ہٹو علیؔ اکبر ہے میرا لال
وہ دونوں مرنے والے تو پہلو میں ہوتے تھے
پھیلا کے پاؤں یہ مری چھاتی پہ سوتے تھے

چھوٹا تو ضد بھی کرتا تھا راتوں کو بارہا
پرعونؔ کیا عقیلؔ تھا بخشے اسے خدا
دن رات تھی خوشامدِ ہم شکل مصطفا
سینے پہ جب یہ سوئے تو اس نے یہی کیا
آقا کے نور عین ہیں عالی مقام ہیں
اماں یہ شاہزادے ہیں اور ہم غلام ہیں

رہتے تھے پاس باپ کے وہ غیرتِ قمر
الفت میں ان کی مجھ کو کچھ ان کی نہ تھی خبر
قرآن پڑھنے بیٹھتی تھی جب دمِ سحر
صورت پہ تھی انہیں کی تلاوت میں بھی نظر
غافل نہ ان کے پیار سے میں ایک آن تھی
قرآں تو رحل پر تھا حمائل میں جان تھی

میں نے انہیں پہ صدقے کئے اپنے دونوں لال
تسکین تھی کہ باقی ہے اکبر سا نونہال
مانگے تو آگے مجھ سے بھلا رخصتِ جدال
نکلوں گی ساتھ خیمے سے بکھرا کے سر کے بال
کیا خوب جیتے جی مَرے جائیں گے مرنے کو
تلوار باندھ لی ہے ہمیں ذبح کرنے کو

بچپن میں تھا نہ ہم سے زیادہ کسی کا پیار
اب کیا غرض گزر گئی وہ فصل وہ بہار
بھیگیں مسیں نمود ہوا سبزۂ عذار
مالک ہیں خود بھلا مرا اب کیا ہے اختیار
ثابت ہوا اِدھر سے اُدھر مرنے جائیں گے
میں مر بھی جاؤں گی تو وہ یاں تک نہ آئیں گے

باہر سدھارے یا ابھی ہیں ماں سے کچھ کلام
بھابی نے کیوں لیا تھا ابھی رو کے میرا نام
سینے پہ منہ کو رکھ کے یہ بولا وہ لالہ فام
آنکھیں تو آپ کھولیے حاضر ہے یہ غلام
خادم جدا نہ تھا شہِ گردوں سریر سے
کس جرم پہ حضور خفا ہیں حقیر سے

کیا ہے قصور جس پہ یہ غصہ ہے یہ عتاب
کرتا ہوں بات میں کوئی بے مرضیِٔ جناب
روتا ہوں اب کہ صبر کی مجھ کو نہیں ہے تاب
شکوہ یہ خاکسار کا اے بنتِ بوتراب
ہر دکھ میں ہر بلا میں مددگار آپ ہیں
پالا ہے مجھ کو مالک و مختار آپ ہیں

پیدا ہوا تو آپ کی صحبت مجھے ملی
کرتی ہے روح شکر وہ راحت مجھے ملی
یوسف کو کب ملی تھی جو دولت مجھے ملی
رکھا عزیز آپ نے عزت مجھے ملی
صدقہ ہے اس قدم کا جو سر تا فلک گیا
کی مہر آفتاب نے، ذرہ چمک گیا

مرضی نہ ہو تو رن کو بھی جائے نہ یہ غلام
بندے ہیں ہم اطاعتِ مالک سے ہم کو کام
تکرار کی مجال نہ اصرار کا مقام
مرتے اگر تو اس میں بھی تھا آپ ہی کا نام
روتی ہیں آپ کس لیے اچھا نہ جائیں گے
پر یاد رکھیے منہ نہ کسی کو دکھائیں گے

یہ کہہ کے جھک گیا جو قدم پر وہ ذی وقار
بس ہو گئیں محبتِ قلبی سے بے قرار
پھیلا کے دونوں ہاتھوں کو اٹھیں بحال زار
شکوے کے بدلے منہ سے یہ نکلا کہ میں نثار
امڈا یہ دل کہ چشم کے ساغر چھلک پڑے
دیکھا جو آفتاب کو آنسو ٹپک پڑے

لے کر بلایں بولیں کہ واری خفا نہ ہو
صدقے ہے تم پہ جان ہماری خفا نہ ہو
باتیں تھیں یہ تو پیار کی ساری خفا نہ ہو
روتے ہو کیوں منگاؤ سواری خفا نہ ہو
آئے بلا حسینؔ پہ جو اس کو رد کرو
اچھا سدھارو دکھ میں پدر کی مدد کرو

الفت کے جوش میں تو یہ منہ سے کہا مگر
اٹھا یہ دل میں درد کہ تھرا گیا جگر
کبراؔ کو روتے دیکھ کے بولی وہ نوحہ گر
کیا ماجرا ہوا مجھے مطلق نہیں خبر
میں روکنے نہ پائی کہ وار ان کا چل گیا
کیا میں نے کہہ دیا کہ کلیجہ نکل گیا

کیا جا کے اب نہ آئے گا گھر میں یہ نونہال
ہے ہے مری کمائی پہ آ جائے گا زوال
جس وقت سے شہید ہوئے رن میں دونوں لال
بیہوش ہوں، حواس میں ہے میرے اختلال
ایسا ہے اضطراب کہ کچھ جس کی حد نہیں
جو آپ میں نہ ہو سخن اس کا سند نہیں

میں ہوش میں نہ تھی یہ قدم پر گرے تھے جب
میں بھی کہوں، یہ پاؤں پہ گرنے کا کیا سبب
لو مجھ پہ اب کھلا کہ یہ رخصت کی تھی طلب
اکبرؔ کو میں نے ہاتھ سے کھویا تھا ہے غضب
اِصلا خبر نہیں مرے دلبر نے کیا کہا
میں نے جواب کیا دیا اکبرؔ نے کیا کہا

کیا کہہ دیا تھا مرنے کو جائے یہ گل بدن
راضی ہوئی تھی میں کہ خزاں ہو مرا چمن
بیخود ہوں جب سے رن میں سدھارے شہِ زمن
کہتی ہوں کچھ زباں سے نکلتا ہے کچھ سخن
اتنی خبر نہیں علیؔ اکبر کے پیار میں
قابو میں ہے نہ دل نہ زباں اختیار میں

زندوں میں ہوتی گر تو یہ کہتی کہ مرنے جائیں
اس پیاس میں شہید ہوں فاقوں میں زخم کھائیں
اٹھا رواں برس ہے دلھن تو مجھے دکھائیں
پالا ہے منتوں سے، مُرادیں مری برآئیں
مرتی ہوں اشتیاق میں سہرا تو دیکھ لوں
سہرے کے نیچے چاند سا چہرا تو دیکھ لوں

رخصت کے نام سے مرا پھٹتا ہے اب جگر
ایسا نہ ہو کہ بانوئے بے کس کو ہو خبر
گر سن لیا تو دل میں کہے گی وہ نوحہ گر
پیارا ہوا نہ بنتِ علیؔ کو مرا پسر
سمجھیں تھیں کیا جو دی اسے رخصت جدال کی
زینبؔ نے ہائے قدر نہ کی میرے لال کی

سچ ہے کہ اس کی چاہ سے نسبت مجھے کہاں
ہوں لاکھ ان کی چاہنے والی وہ پھر ہے ماں
آنکھوں کا نور قلب کی طاقت بدن کی جاں
آنچ آتما کی ہے وہ قیامت کہ، الاماں
کیا سوچتے ہو صاحبو کچھ تم کو خیر ہے
ماں ہے تو ماں ہے خلق میں پھر غیر غیر ہے

ماں کی نہ کم توجہی اور نہ کسی کا پیار
غصہ ہو، یا کہ سخت کہے دل میں ہے نثار
بلبل فدا ہے گل پہ، شکایت کرے ہزار
دنیا میں عاشقوں کے دلوں کو کہاں قرار
دیں ماں کا ساتھ نامِ خدا اب جوان ہیں
میرا ہے جب یہ حال، پھر اس کی تو جان ہیں

جس دم سنے یہ دُور سے بانو نے سب کلام
آئی قریب حضرت زینب وہ نیک کام
کی غرض ہاتھ جوڑ کے اے خواہر امام
میں ہوں کنیز آپ کی اور یہ پسر غلام
کس کی مجال ہے جو کہے گا یہ کیا کیا
بی بی نے دی غلام کو رخصت، بجا کیا

لونڈی ہے فاطمہ کی کنیزوں میں با وفا
ہو قطع وہ زباں جو کرے آپ کا گلا
حضرت کو ان کے سر پہ سلامت رکھے خدا
مالک ہیں آپ اس میں کسی کو ہے دخل کیا
کچھ جائے گفتگو ہے نہ ماں کو نہ باپ کو
ہے دخل اذن دینے نہ دینے کا آپ کو

غم کھائیے نہ خونِ جگر آپ پیجئے
عابدؔ کو بھیج دیجیے اصغرؔ کو بھیجئے
ہے اختیار دیجیے رخصت نہ دیجیے
قربان جاؤں جو ہو مناسب وہ کیجیے
شادی ہو یا کہ غم ہو شریکِ ثواب ہوں
ہر طرح سے میں تابع حکمِ جناب ہوں

گھر میرا جب سے لٹ گیا اس گھر میں آئی ہوں
شکوے کا کوئی حرف کبھی لب پہ لائی ہوں
کسریٰ کی گو کہ پوتی ہوں سلطاں کی جائی ہوں
لونڈی ہوں آپ کی علیؔ اکبر کی دائی ہوں
صدقہ یہ آپ کا ہے جو شہ کو عزیز ہوں
بھاوج نہ جانیے مجھے ادنیٰ کنیز ہوں

آپ اس کی ماں ہیں آپ کا فرزند ہے یہ لال
دخل اس معاملہ میں کوئی دے یہ کیا مجال
یہ عازم جدال ہے اور آپ کا یہ حال
قدموں کو چھوڑتا نہ کبھی یہ نکو خصال
آپ اس کو چاہتی ہیں یہ صدقے ہے آپ پر
پر کیا کرے کہ آج مصیبت ہے باپ پر

قسمت بری ہے اس میں کسی کا قصور کیا
اچھا رہیں کہ جائیں ہمارا بھی ہے خدا
پروا ہماری ہے نہ خیال ان کو آپ کا
تابع ہم آپ کے بھی ہیں ان پر بھی ہیں فدا
عابدؔ ہوں یا کہ یہ سبھی، آنکھوں کے تارے ہیں
پر اب تو یہ نہ آپ کے ہیں، نہ ہمارے ہیں

یہ سن کے کانپنے لگی زینبؔ جگر فگار
آئی صدائے فاطمہؔ بیٹی یہ ماں نثار
اللہ یہ محبتِ فرزند اور یہ پیار
تنہا ستم کی فوج میں ہے میرا گل عذار
رخصت نہ دے گی تو اگر اس نور عین کو
کون اب بچائے گا مرے بیکس حسینؔ کو

آواز سن کے کانپ گئی بنتِ مرتضا
بانوؔ کے منہ کو دیکھ کے اکبرؔ سے یہ کہا
واری سدھارو خیر جو کچھ مرضیِٔ خدا
ترکِ ادب ہے تم کو اگر اب نہ دوں رجا
یاں والدہ بہشت سے تشریف لائی ہیں
بنتِ نبی تمہاری سفارش کو آئی ہیں

تسلیم کرکے خیمے سے وہ سیم بر چلا
پیچھے حرم کا قافلہ سب ننگے سر چلا
بانوؔ پکارتی تھی کہ پیارا پسر چلا
چلاتی تھی پوپھی مرا لختِ جگر چلا
لٹتے ہیں اہلِ بیت دہائی امام کی
تصویر گھر سے جاتی ہے خیر الانام کی

بھائی کے غم سے عابدِ بیکس تھے بے قرار
اٹھتے تھے اور زمین پہ گرتے تھے باربار
بہنیں پکارتی تھیں کہ بھیا ترے نثار
سینوں کو پیٹتی تھیں خواصیں بہ حال زار
اک حشر تھا جدا علیؔ اکبر جو ہوتے تھے
جھولے میں پھوٹ پھوٹ کے اصغرؔ بھی روتے تھے

ہلتا تھا خیمہ رانڈوں میں تھی، یہ دھڑا دھڑی
آہوں کی بجلیاں تھیں تو اشکوں کی تھی جھڑی
کوئی ادھر کو غش تھی کوئی تھی اُدھر پڑی
آفت کا وقت تھا تو قیامت کی تھی گھڑی
ماتم تھا یہ حسینؔ کے تازہ جوان کا
جاتا ہے گھر سے جیسے جنازہ جوان کا

نکلا حرم سرا سے جو وہ نورِ حق کا نور
خادم نے دی صدا کہ برآمد ہوئے حضور
حضرت کھڑے تھے خیمے کی ڈیوڑھی سے کچھ جو دور
دستِ ادب کو جوڑ کے بولا وہ ذی شعور
رخصت ہوں اب جو حکم شہ نامدار ہو
رو کر کہا حسینؔ نے اچھا سوار ہو

گھوڑے پہ شاہزادۂ عالم ہوا سوار
گویا چلے جہاد کو محبوب کردگار
تھا ثانیِٔ براق فلک سیر راہوار
صرصر سے تند و تیز تو بجلی سے بے قرار
یوں سامنے سے وہ دمِ جولاں نکل گیا
گویا ہوا پہ تختِ سلیماں نکل گیا

حضرت تو یاں زمیں پہ گرے تھام کر جگر
جاسوس نے یہ لشکر اعدا کو دی خبر
آتا ہے اک جوانِ حسیں غیرت قمر
چہرہ پہ اس کے نور محمد ہے جلوہ گر
شان و شکوہ سب اسدِ کبریا کی کی ہے
کہتے ہیں سب بشر نہیں قدرت خدا کی ہے

ہے دھوم ذرے ذرے میں اس آفتاب کی
خوشبو ہے زلف و جسم میں مشک و گلاب کی
سر تا قدم ہے شان رسالت مآب کی
تصویر ہے رسولِ خدا کے شباب کی
گھوڑے کے گرد جن و ملک کا ہجوم ہے
صلّو علی النبی کی بیاباں میں دھوم ہے

روشن کیا ہے روئے منور نے راہ کو
رخ پر نہیں ٹھہرنے کا یارا نگاہ کو
حیراں ہے عقل دیکھ کے زلفِ سیاہ کو
آغوش میں لیے ہے شبِ قدر ماہ کو
چہرے کے نور سے شبِ مہتاب ماند ہے
خالق گوا ہ ہے کہ اندھیرے کا چاند ہے

یہ ذکر تھا کہ نورِ خدا جلوہ گر ہوا
گویا رسولِ پاک کا رن میں گذر ہوا
چلائے اہلِ شام کہ طالع قمر ہوا
ہنگامِ ظہر تھا پہ گمانِ سحر ہوا
جلوہ دکھایا برق تجلیِٔ طور نے
خورشید کو چھپا دیا چہرے کے نور نے

غش کھا گیا کوئی کوئی گر کر سنبھلا گیا
صلِّ علیٰ کسی کی زباں سے نکل گیا
خجلت سے آفتاب کا نقشبہ بدل گیا
چمکا جو نور دھوپ کا جو بن بھی ڈھل گیا
دریائے نور حق کا فقط اوج موج تھا
سب پست تھے زمیں کے ستارے کا اوج تھا

صحرا کو شمعِ حسن نے تابند کر دیا
جو مردہ دل تھے دم میں انہیں زندہ کر دیا
ذروں کو آفتاب درخشندہ کر دیا
گردوں کو اس زمین نے شرمندہ کر دیا
پایہ زمیں کا عرش کے ہم دست ہو گیا
جادے سے اوجِ کاہکشاں پست ہو گیا

اللہ رے نبیرۂ مشکل کشا کی شان
تھی جس کے عضو عضو سے پیدا خدا کی شان
حیراں تھے لوگ دیکھ کے اس مہ لقا کی شان
حمزہ کا رعب زورِ علی مصطفی کی شان
پاکیزگی نسب میں بزرگی صفات میں
شیرینیٔ کلام حسنؔ بات بات میں

کچھ حسن بچپنے کا تو کچھ آمد شباب
وہ گل سا جسم اور وہ چہرے کی آب و تاب
اپنی جگہ یہ خال کے نقطے ہیں انتخاب
پتلی کا نور جن کی سیاہی سے بہرہ یاب
گردن کی ضو میں طَور تجلیٔ طُور کے
سب عضو تن ڈھلے ہوئے سانچے میں نور کے

دل پاک روح پاک نطر پاک جسم پاک
طینت میں آبِ خلد تھا اور کربلا کی خاک
غرفوں سے جس کے حسن کی حوروں کو جھانک تاک
یوسف جو دیکھ لیں تو کہے روحنا فداک
نام اس کا لوح پر جو قلم نے رقم کیا
سو بار پڑھ کے سورۂ نور اس پہ دم کیا

کیا دخل، چار ہو، جو کسی بے ادب کی آنکھ
رکھتی تھی رعب یہ، نہ عجم نہ عرب کی آنکھ
لاکھوں تھے اس طرف پہ جھپکتی تھی سب کی آنکھ
غصہ ستم کا، قہر کی چتون غضب کی آنکھ
پانی تھا، خوف جاں سے جگر، ہر دلیر کا
آہو شکار کرتے تھے میداں میں شیر کا

غل تھا رسولِ پاک کے ثانی کو دیکھنا
حسنِ بہار باغ جوانی کو دیکھنا
کھلتے ہیں گل شگفتہ بیانی کو دیکھنا
یہ سب تو ہے پہ غنچہ دہانی کو دیکھنا
نازک لب اس صفت کے دہن اس طریق کا
خاتم پہ جڑ دیا ہے نگینہ عقیق کا

کچھ عمر بھی نہیں ابھی اٹھارواں ہے سال
یہ باغ کس بہار میں ہوتا ہے پائمال
قامت یہ ہے کہ سروِ گلستانِ اعتدال
ماں باپ دیکھ دیکھ کے کیوں کر نہ ہوں نہال
آنکھوں کے سامنے جو یہ قامت نہ ہوئے گی
بتلاؤ ماں کہ دل پہ قیامت نہ ہوئے گی

زخمی جو ہوگی تیر سے یہ چاند سی جبیں
پٹکے گی سر کو خاک پہ بانوئے دل حزیں
تیغوں سے جب کٹیں گے یہ رخسار نازنیں
پیٹیں گے دونوں ہاتھوں سے منہ اپنا شاہِ دیں
سینہ چھدے پسر کا تو کیا دل کو کل پڑے
ایوبؔ بھی جو ہوں تو کلیجہ نکل پڑے

ناگاہ فوج کیں سے عمرؔ نے کیا کلام
یہ وقت کار زار ہے اے ساکنانِ شام
بس ہے یہی بساط شہنشاہِ خاص و عام
مارا گیا یہ شیر تو مر جائیں گے امام
لُوٹو جناب فاطمہؔ زہرا کے باغ کو
ٹھنڈا کرو حسینؔ کے گھر کے چراغ کو

تصویر مصطفی کی مٹائے گا آج جو
کہتا ہوں میں کہ صاحب جاگیر ہوگا وہ
محبوب کبریا کے مشابہ ہے گر تو ہو
اب مصلحت یہی ہے کہ مہلت اسے نہ دو
ہے اس سے کیا مراد حسیں ہے کہ نیک ہے
دو لاکھ اس طرف ہیں دلاور وہ ایک ہے

دنیا نہ جائے دین کا گر ہو تو ہو ضرر
ٹکڑے کرو اسے کہ یہ دشمن کا ہے پسر
تم آب دیدہ ہو لبِ خشک اس کے دیکھ کر
قطرہ نہ دوں میں گھٹنیوں اصغرؔ بھی آئے گر
غیر از یزیدؔ اور کوئی حکمراں نہ ہو
اولاد مرتضیٰ میں کسی کا نشاں نہ ہو

ہاں غازیو نہ اس کی جوانی کا غم کرو
نیزے پہ نیزے مارو ستم پر ستم کرو
برچھی اٹھاؤ ہاتھوں پہ تیغیں علم کرو
نخلِ مرادِ سبطِ نبی کو قلم کرو
بیٹا نہ جب رہا تو کدھر جائیں گے حسینؔ
گھوڑے سے یہ گرے گا تو مرجائیں گے حسینؔ

چھد جائے گا سناں سے جو اس شیر کا جگر
تڑپیں گے کیا زمیں پہ شہنشاہ بحر و بر
ڈیوڑھی سے ماں پکارے گی ہے ہے مرا پسر
نکلے گی خیمہ گاہ سے زینبؔ برہنہ سر
حضرت تو پیٹتے ہوئے لاشے پہ آئیں گے
ہم لوٹنے کو خیمۂ اقدس میں جائیں گے

یہ گل عذار دخترِ حیدرؔ کی جان ہے
بہنوں کی زندگی ہے برادر کی جان ہے
بابا کی روح ہے تنِ مادر کی جان ہے
بے جاں کرو اسے کہ یہ سب گھر کی جان ہے
جوشن یہی ہے بازوئے برناوپیر کا
بعد اس کے خاتمہ ہے صغیر و کبیر کا

یہ سن کے فوجِ کیں ہوئی آمادۂ نبرد
دردِ دل حسین کا تھا ایک کو نہ درد
غل سن کے ہو گیا شہ والا کا رنگ زرد
کانپے جو پاؤں بیٹھ گئے بھر کے آہ سرد
ماں گر پڑی زمیں پہ پھوپھی بلبلا گئی
بدلی ستم کی واں علیؔ اکبر پہ چھا گئی

قرنا پھکی سپاہ میں طبلِ وغا بجا
باندھے پرے سواروں نے بڑھ بڑھ کے جابجا
پیدل، چلے نبرد کو باجے بجابجا
چلاے اہلِ بیت کہ ہے ہے یہ کیا بجا
حضرت پکارے لال پہ اعدا کے ریلے ہیں
رانڈو دعا کرو علیؔ اکبر اکیلے ہیں

لڑنے کو اس طرف سے عدو سب کے سب بڑھے
تنہا ادھر سے اکبرؔ عالی نسب بڑھے
چومے قدم نہیب نے جھک کر یہ جب بڑھے
گویا پئے جہاد امیر عرب بڑھے
دہشت سے فوج شام کی بدلی سمٹ گئی
قدرت خدا کی دن جو بڑھا رات گھٹ گئی

ڈھالوں کو رکھ کے چہروں پہ گر گر پڑے حسود
گو تھے کئی ہزار پہ کیا ان کی ہست و بود
تھرا گیا تمام جنودِ سقر و رود
نورِ خدا کے سامنے ظلمت کی کیا نمود
عبرت سپاہ شام پہ دِہ چند ہو گئی
باجوں کی فوجِ کیں کے صدا بند ہو گئی

جرار کی زرہ پہ لگے جب کئی خدنگ
صفدر نے پڑھ کے فاتحہ، لی تیغ شعلہ رنگ
چمکا اک آئینہ کہ ہوئی فوجِ شام دنگ
دکھلائے تیغ تیز نے بجلی کے رنگ ڈھنگ
تھی کس کو تاب صاعقۂ شعلہ بار کی
یاد آ گئی ہر اک کو چمک ذوالفقار کی

تھم تھم کے یوں گیا صفِ اعدا پہ وہ دلیر
جاتا ہے داؤں کر کے غزالوں پہ جیسے شیر
غازی جو بھوک پیاس میں تھا زندگی سے سیر
کشتوں کے پشتے ہو گئے دم میں سروں کے ڈھیر
اک سیل زور شور سے آئی گذر گئی
ثابت نہ یہ ہوا صفِ اول کدھر گئی

جب یہ بڑھے لہو تنِ اعدا کا گھٹ گیا
باقی تھا جو حساب وہ لاشوں سے پٹ گیا
لشکر میں فرد فرد کا چہرا جو کٹ گیا
پس دفعتاً سپاہ کا دفتر الٹ گیا
سر داخلِ خزانۂ سرکار ہوگئے
پہلا ہی جائزہ تھا کہ بیکار ہوگے

چہرے پہ ایک کے نہ بحالی نظر پڑی
جو صف بھری ہوئی تھی وہ خالی نظر پڑی
سر پر سبھوں کے تیغ ہلالی نظر پڑی
سوئے جنوب فوجِ شمالی نظر پڑی
غل تھا کہ تیغ تیز نہیں موت آتی ہے
کیوں کر قدم تھمیں کہ زمیں سرکی جاتی ہے

ٹکڑے پڑے تھے خاک پہ بھالے اِدھر اُدھر
چھپتے تھے ڈر کے برچھیوں والے اِدھر اُدھر
پیشِ نظر تھے خون کے تھالے اِدھر اُدھر
ابتر تھے دشتِ کیں میں رسالے اِدھر اُدھر
ملتا تھا فصل کا نہ ٹھکانا نہ باب کا
شیرازہ کھل گیا تھا ستم کی کتاب کا

بڑھ کر کسی نے وار جو روکا سپر کٹی
چار آئینہ کٹا زرہِ خیرہ سر کٹی
نیزے کی ہرگرہ صفتِ نیشکر کٹی
سینہ کٹا جگر ہوا زخمی کمر کٹی
رہوار بھی دو نیم میانِ مصاف تھا
ان سب کے بعد منہ کو جو دیکھا تو صاف تھا

وہ گھاٹ باڑھ اور وہ اس کی چمک دمک
کانپی کبھی زمیں کبھی تھرا گئے فلک
شعلے میں یہ چمک تھی نہ بجلی میں یہ لپک
ہر ضرب میں سما سے تلاطم تھا تا سمک
کونین میں حواس بجا تھے نہ ایک کے
گاوِ زمیں سمٹتی تھی گھنٹوں کو ٹیک کے

سیدھی چلی وہ جب صفِ دشمن الٹ گئی
باقی تھی جتنی عمر تہِ تیغ کٹ گئی
آ کر زمیں پہ جب سوئے گردن پلٹ گئی
بجلی سے رعد رعد سے بجلی لپٹ گئی
گرتے تھے جن، زمین پہ منہ ڈھانپ ڈھانپ کے
ہٹتے تھے جبرئیل امیں کانپ کانپ کے

ملتا نہ تھا صفوں میں عَلم کا نشاں کہیں
چلے کہیں تھے شست کہیں اور کماں کہیں
نیزے کہیں تھے ڈانڈ کہیں اور سناں کہیں
جمدھر کہیں کمند کہیں برچھیاں کہیں
اک اک سیاہ رو کا جگر داغ داغ تھا
جنگل تمام ڈھالوں کے پھولوں سے باغ تھا

چمکی گری اٹھی ادھر آئی اُدھر گئی
خالی کیے پرے تو صفیں خوں میں بھر گئی
کاٹے کبھی قدم کبھی بالائے سر گئی
ندی غضب کی تھی کہ چڑھی اور اتر گئی
اک شور تھا یہ کیا ہے جو قہر صمد نہیں
ایسا تو رودِ نیل میں بھی جزر و مد نہیں

سر خود سروں کے چنبر گردن سے اڑ گئے
ہاتھ آستیں سے اڑ گئے سر تن سے اڑ گئے
ڈر ڈر کے سب پرند نشیمن سے اڑ گئے
پائی جو راہ طائرِ جاں سَن سے اڑ گئے
تھے قتلِ عام پر علیؔ اکبر تلے ہوئے
رستے تھے بند زخموں کے کوچے کھلے ہوئے

اللہ رے دو زبانیٔ تیغ دو دم کا کاٹ
آفت تھی جس کی باڑھ قیامت تھا جس کا گھاٹ
مقتل سے تا بہ نہر تھا دریائے خوں کا پاٹ
ہر دم تھی اس کو تازہ لہو چاٹنے کی چاٹ
سختی کو جوڑ بند کے کب مانتی تھی وہ
ہر استخواں کو مغز قلم جانتی تھی وہ

آئی جدھر پلٹ کے صفوں کو بچھا گئی
تن سے اڑا دیا وہی سر جس کو پا گئی
ہر اک کڑی کو نرم سمجھ کر چبا گئی
فولاد کی زرہ کو اشارے میں کھا گئی
چار آئینہ کا کاٹ بھی اس پر حوالہ تھا
ذکر اس کا کیا ہے خود تو منہ کا نوالہ تھا

یارا قرار کا تھا نہ صورت فرار کی
پیدل کی موت تھی تو خرابی سوار کی
روئیں تنوں کو، تاب نہ تھی ایک وار کی
ٹکڑے تھے دو کے ہاتھ یہ گھائی تھی چار کی
آگے بڑھے تو منہ وہیں کٹ جائے گیو کا
بجلی کی تھی کڑک کہ طمانچہ تھا دیو کا

اتری زمیں پہ وہ سر دشمن پہ جب چڑھی
دم بھر میں آبِ تیغ کی ندی غضب چڑھی
اک شور تھا صفوں میں کب اتری یہ کب چڑھی
سب کو بخارِ تیغ سے لرزے کی تپ چڑھی
مقتل سے بھاگنے پہ تنک ظرف تُل گئے
کانپے یہ نیزہ باز کہ سب بند کُھل گئے

زندہ کسی کو تیغ دو دم چھوڑتی نہ تھی
پیاسی یہ تھی کہ جسم میں دم چھوڑتی نہ تھی
بے دم کیے گلا کوئی دم چھوڑتی نہ تھی
بھاگیں کہاں کہ موت قدم چھوڑتی نہ تھی
خود وہ دبے جو لڑتے تھے گھوڑوں کو داب کے
بیڑی قدم میں بن گئے، حلقے رکاب کے

قعرِ سقر میں کشتۂ ضربِ نخست تھے
بے سر ہوئے بہت جو لڑائی میں چست تھے
قبضہ میں تھا نہ زور نہ بازو درست ھے
کھینچیں کسے کمانوں کے بازو بھی سست تھے
ہر کج نہاد تیر اجل کا نشانہ تھا
شانے بھی تھے قلم یہ نیا شاخسانہ تھا

تیغوں کو ڈر کے عربدہ جو پھینکنے لگے
مغفر سروں سے مثل سبو پھینکنے لگے
حلقے کماں کے سب لب جو پھینکنے لگے
تنکا سمجھ کے تیر عدو پھینکنے لگے
ترکش بھی اہل ظلم کے آفت رسیدہ تھے
چلّے بھی کشمکش میں کماں سے کشیدہ تھے

کرتے تھے فتح جنگ کو جو ایک آن میں
رعشہ تھا ان کے ہاتھ میں لکنت زبان میں
الجھاتے تھے کمند کمینے کمان میں
ترکش میں تیغیں رکھتے تھے تیروں کو میان میں
تلوار رکھ کے ہاتھ سے منہ ڈھانپ لیتے تھے
آتی تھی تیغ جب تو سپر پھینک دیتے تھے

بڑھتے تھے جو پرے سے بڑے بول بول کے
پہلے انہیں کو مار لیا رول رول کے
حملہ کیا جو تیغِ دو دم تول تول کے
ہتھیار سب نے پھینک دیے کھول کھول کے
اس شان سے کبھی نہ عجم نہ عرب لڑے
دو دن کی پیاس میں علیؔ اکبر غضب لڑے

دہشت سے کتنے ڈوب کے دریا میں مر گئے
اس گھاٹ پر جو آئے سر ان کے اتر گئے
رستہ تھا ایک اِدھر وہ گئے یا اُدھر گئے
ہر پھر کے ہر طرف سے میانِ سقر گئے
نار ان کے اشتیاق میں آب ان کی لاگ میں
پھینکا ہوا نے آب میں پانی نے آگ میں

وہ حرب وہ شکوہ وہ شان پیمبری
نعرے وہ زور و شور کے وہ ضرب حیدریؔ
وہ تیغ خوں چکاں وہ جلالِ غضنفری
راکب جو رشکِ حور تو رہوار بھی پری
چالاک آہوانِ ختن اس قدر نہ تھے
اڑ جاتا تھا ہما کی طرح اور پر نہ تھے

باریک جلد وہ کہ نظر آئے تن کا خوں
کنڈے کو دیکھ کر مہِ نو ہووے سرنگوں
رفتار میں وہ سحر کہ پریوں کو ہو جنوں
غنچے بھی کچھ بڑے ہیں کنوتی کو کیا کروں
قرباں ہزار جان، فرس بے نظیر پر
پیکان دو چڑھے ہوئے ہیں ایک تیر پر

کوتاہ و گرد و صاف کنوتی کمر کفل
کیا خوشنما کشادگیِٔ سینہ و بغل
سیماب کی طرح نہیں آرام ایک پل
پھرتا تھا اس طرح کہ پھرے جس طرح سے کَل
راکب نے سانس لی کہ وہ کوسوں روانہ تھا
تارِ نفس بھی اس کے لیے تازیانہ تھا

وہ جست خیز سرعتِ چالاکیِٔ سمند
سانچے میں تھے ڈھلے ہوئے سب اس کے جوڑ بند
سُم قرص ماہتاب سے روشن ہزار چند
نازک مزاج و شوخ و سیہ جسم سر بلند
گر ہل گئی ہوا سے ذرا باگ اڑ گیا
پُتلی سوار کی نہ پھری تھی کہ مُڑ گیا

آہو کی جست شیر کی آمد پری کی چال
کبکِ دری خجل پر طاؤس پائمال
سبزہ سبک روی میں قدم کے تلے نہال
اک دو قدم میں بھول گئے چوکڑی غزال
جو آ گیا قدم کے تلے گرد برد تھا
چھل بل غضب کی تھی کہ چھلاوا بھی گرد تھا

بجلی کبھی بنا کبھی رہوار بن گیا
آیا عرق تو ابر گہر بار بن گیا
گہ قطب، گاہ گنبد دوّار بن گیا
نقطہ کبھی بنا کبھی پرکار بن گیا
تیراں تھے اس کے گشت پہ لوگ اس ہجوم کے
تھوڑی سی جا میں پھرتا تھا کیا جھوم جھوم کے

جب اس جری نے قتل کیے پانچ سو جواں
ہر صف سے ہر پرے سے اٹھا شور الاماں
چلایا ابن سعدِ سیہ قلب و سخت جاں
نکلیں وہ دس ہزار کماندار ہیں کہاں
برچھی کا اب ہے کام نہ تلوار چاہیے
اس نوجواں پہ تیروں کی بوچھار چاہیے

یہ سن کے تشنہ لب پہ چلے چار سو سے تیر
پتھر عقب سے پڑنے لگے رو برو سے تیر
آتے تھے فوج فوج، سپاہِ عدو سے تیز
سب سرخ تھے شبیہ نبی کے لہو سے تیر
مقتل میں کیا ہجوم تھا اس نور عین پر
پروانے گر رہے تھے چراغِ حسینؔ پر

سینے پہ تیر کھا کے اٹھایا جو راہوار
بجلی چمک کے ہو گئی گویا فلک کے پار
سر خاک پر گرانے لگی تیغِ آبدار
تیروں کو پھینک پھینک کے بھاگے خطا شعار
حملہ کیا تھا جن پہ رخ ان کے تو پھر گئے
پر یہ پلٹ کے برچھیوں والوں میں گھر گئے

یوں آ گیا سنانوں میں وہ آسماں جناب
ہو جس طرح خطوطِ شعاعی میں آفتاب
سوکھی زباں میں پڑ گئے کانٹے بغیر آب
طاقت بھی فرط ضعف سے دینے لگی جواب
آمد ہوئی جو غش کی سرِ پاک جھک گیا
واحسرتا کہ ہاتھ بھی لڑنے سے رک گیا

اس حال میں بھی تیغ سے کیں برچھیاں قلم
لیکن جگر پہ لگ گیا اک نیزۂ ستم
زخمِ جگر سے بہنے لگا خون دم بہ دم
نکلے ہوئے رکابوں سے تھراتے تھے قدم
کھینچا جو اس نے سینے سے نیزہ تکاں کے ساتھ
دو پارۂ جگر نکل آئے سناں کے ساتھ

نیزہ لگا کے بھاگ چلا تھا وہ نابکار
قربان جرأتِ پسرِ شاہِ نامدار
زخمِ سناں تھا سینۂ انور کے وار پار
ماری شقی کو دوڑ کے اک تیغ آبدار
پہونچوں سے اس کے ہاتھ قلم ہو کے گر پڑے
لیکن فرس سے آپ بھی خم ہو کے گر پڑے

گرنا تھا بس کہ سر پہ لگا گرز ہے ستم
یوں جھک گئے کہ ہوتے ہیں سجدے میں جیسے خم
رکھ دی گلے پر شیثؔ نے شمشیر تیز دم
تلوار اک پڑی کہ ہوئیں پسلیاں قلم
غل تھا کرو نہ رحم تنِ پاش پاش پر
دوڑا دو گھوڑے اکبرؔ مہرو کی لاش پر

حضرت کھڑے تھے خیمے کی پکڑے ہوئے طناب
سن کر یہ غل رہی نہ دلِ ناتواں کو تاب
ناگاہ رن سے آئی صدا اے فلک جناب
بیٹا جہاں سے جاتا ہے اب آئیے شتاب
لاشے پہ ظلم و جور بد افعال کرتے ہیں
گھوڑوں سے اہل کیں ہمیں پامال کرتے ہیں

سن کر یہ استغاثۂ فرزند خوش خصال
سید نے آہ کی کہ ہلا عرش ذو الجلال
کھولے جناب فاطمہؔ کی بیٹیوں نے بال
بانوؔ پکاری خیر تو ہے اے علیؔ کے لال
ہے ہے پسر سے کون سی مادر بچھڑ گئی
صاحب بتاؤ کیا مری بستی اجڑ گئی

نیزے سے کس کے لال کا زخمی ہوا جگر
کرتے ہیں کس کی لاش کو پامال اہلِ شر
کہتا ہے کون رن میں تڑپ کر پدرپدر
اب گھر سے میں نکلتی ہوں ہے ہے مرا پسر
پردہ نہ مجھ سے کیجیے سب جانتی ہوں میں
آواز یہ اسی کی ہے پہچانتی ہوں میں

بانوؔ کو قسمیں دے کے چلے شاہِ نامدار
وہ پیاس اور وہ دھوپ کا صدمہ وہ اضطرار
دل تھا الٹ پلٹ تو کلیجہ تھا بے قرار
اٹھتے تھے اور زمین پہ گرتے تھے باربار
چلاتے تھے شبیہ پیمبر ہم آتے ہیں
گھبرائیو نہ اے علیؔ اکبر ہم آتے ہیں

بیٹا پکارو پھر کہ بصارت میں فرق ہے
اے نور عین جسم کی طاقت میں فرق ہے
تم یہ نہ جانیو کہ محبت میں فرق ہے
زخمی ہے قلب روح کی راحت میں فرق ہے
داغِ جگر ملا ہمیں گودی میں پال کے
کس کو دکھاؤں اپنا کلیجہ نکال کے

آؤں کدھر کو اے علیؔ اکبر جواب دو
چلا رہی ہے ڈیوڑھی پہ مادر جواب دو
اکبرؔ برائے خالقِ اکبر جواب دو
بیٹا جواب دو مرے دلبر جواب دو
گرتے ہیں ہم ثواب کا ہاتھوں سے کام لو
بیٹا ضعیف باپ کے بازو کو تھام لو

کچھ سوجھتا نہیں کہ کدھر جاؤں کیا کروں
اے نورِ چشم تجھ کو کہاں پاؤں کیا کروں
مضطر ہے جان و دل کسے سمجھاؤں کیا کروں
کیوں کر پسر کو ڈھونڈھ کے میں لاؤں کیا کروں
پایا تھا مدتوں میں جسے خاک چھان کے
وہ لال ہم نے کھو دیا جنگل میں آن کے

بس اب خبر حسینؔ کی لے جلد اے اجل
اے جسم زار، زیست کا باقی نہیں محل
اے جانِ ناتواں تنِ مجروح سے نکل
ہاں اے نفس چھری کی طرح سے گلے پہ چل
چھوٹے نہ اس کا ہاتھ جو پیری کی آس ہو
لاشہ بھی لاشۂ علیؔ اکبر کے پاس ہو

جنگل سے بے حواس پھرے نہر پر گئے
واں بھی جو وہ گہر نہ ملا سوئے بر گئے
دوڑے کسی طرف تو کسی جا ٹھہر گئے
تھالے ملے لہو کے برابر جدھر گئے
ٹپکا ہوا زمیں پہ جگر کا لہو ملا
لیکن کہیں نہ وہ پسر ماہ رو ملا

جا کر صفوں کے پاس پکارے باشکِ آہ
ہے کس طرف مرے علیؔ اکبر کی قتل گاہ
اے ظالمو، یہ شب ہے کہ دن ہو گیا سیاہ
کس ابر میں چھپا ہے مرا چودھویں کا ماہ
بتلاؤ جان ہے کہ نہیں جسم زار میں
زخمی پڑا ہے شیر مرا کس کچھار میں

لاش پسر کو ڈھونڈھتے تھے شاہِ بحر و بر
سر پیٹنے کی جا ہے کہ ہنستے تھے اہل شہر
کہتا تھا شمر اے پسر سید البشر
کس کو حضور ڈھونڈھتے ہیں مر گیا پسر
خود ڈھونڈھ لیجیے جسد پاش پاش کو
بتلائیں گے نہ ہم علیؔ اکبر کی لاش کو


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.