کیا لیے جاتے ہو چپکے سے چھپا کر ہاتھ میں
کیا لیے جاتے ہو چپکے سے چھپا کر ہاتھ میں
دل نہیں ہے گر تو کیا ہے بندہ پرور ہاتھ میں
تل ہتھیلی کا ہے دانہ اور لکیریں دام ہیں
طائر رنگ حنا آتا ہے اڑ کر ہاتھ میں
جذبۂ دل نے جو گھبرایا پہن کر چل دئے
ہاتھ کا پاؤں میں اور پاؤں کا زیور ہاتھ میں
لے اڑا کیا اضطراب جستجوئے نامہ بر
میں جو اچھلا آ گئے جبریل کے پر ہاتھ میں
ہوں وہ دیوانہ ترا صحرا میں جس کی دھوم تھی
دیکھ کر مجنوں اٹھا لیتا تھا پتھر ہاتھ میں
کل کسی کا خون ہوگا شہر میں مشہور ہے
شعلہؔ مہندی لگ رہی ہے آج گھر گھر ہاتھ میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |