کیا ملے گا کوئی حسیں نہ کہیں
کیا ملے گا کوئی حسیں نہ کہیں
جی بہل جائے گا کہیں نہ کہیں
ہے کدورت بھری ہوئی اس میں
آسماں پر بھی ہو زمیں نہ کہیں
حال پہلو بچا کے لکھا ہے
تاڑ جائے وہ نکتہ چیں نہ کہیں
آپ کی گفتگو کا کیا کہنا
چار باتیں بھی دل نشیں نہ کہیں
غیر دیتا ہے کیوں مجھے ساغر
سانپ ہو زیر آستیں نہ کہیں
تیرے عاشق ہیں کافر و دیں دار
ایک ہو جائے کفر و دیں نہ کہیں
داغؔ پھر تاک جھانک کرتے ہیں
اب گھرے اب پھنسے کہیں نہ کہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |