کیا کہئے
غیروں کا تو کہنا کیا محرم سے نہیں کہتا
میں عالم غم اپنا عالم سے نہیں کہتا
پڑھ لیتی ہیں کیفیت کچھ تڑپی ہوئی نظریں
دکھ اپنا میں ہر چشم پر نم سے نہیں کہتا
رہ گیر ہوں میں ایسا ہر خم سے گزرتا ہے
دعوت پہ جو رندان خرم سے نہیں کہتا
موسم ہمہ گردش ہے پس ماندۂ گردش میں
لب تشنہ کوئی یہ شے کیوں جم سے نہیں کہتا
کسب متحرک سے پابستہ نسب طغرے
یہ کیا ہے کوئی اہل خاتم سے نہیں کہتا
آ داغ محبت کے سانچے میں تجھے ڈھالوں
خاتم سے میں کہتا ہوں درہم سے نہیں کہتا
کچھ بات تھی کہنے کی کچھ بھول گیا اب میں
فطرت سے نہیں کہتا آدم سے نہیں کہتا
کہئے تو نہیں باور نا کہئے تو کافر تر
کہنے کی قسم مجھ کو کو میں ذم سے نہیں کہتا
کہلانے میں خود ان کا کچھ تکملہ نا رس ہے
الٹے انہیں شکوے ہیں کیوں ہم سے نہیں کہتا
ہاں میری یہ الجھن تو ہر دل میں کھٹکتی ہے
کچھ مڑ کے کوئی زلف برہم سے نہیں کہتا
کیوں ہو نہ جنوں کم گو جب ہوتا ہے یہ زیرک
دہراتی ہوئی باتیں محروم سے نہیں کہتا
کہنے سے ہوا گہرا کچھ اور غم پنہاں
میں سائے سے کہتا ہوں ہمدم سے نہیں کہتا
جس لمحے سے دیکھا ہے اک شعر سراپا کو
دانستہ کوئی مصرع اس دم سے نہیں کہتا
دیتے ہیں وہ محفل میں یوں داد لطیفیؔ کو
اشعار یہ کیا اکثر مبہم سے نہیں کہتا
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |