کیا کہئے
by م حسن لطیفی
323370کیا کہئےم حسن لطیفی

غیروں کا تو کہنا کیا محرم سے نہیں کہتا
میں عالم غم اپنا عالم سے نہیں کہتا
پڑھ لیتی ہیں کیفیت کچھ تڑپی ہوئی نظریں
دکھ اپنا میں ہر چشم پر نم سے نہیں کہتا
رہ گیر ہوں میں ایسا ہر خم سے گزرتا ہے
دعوت پہ جو رندان خرم سے نہیں کہتا
موسم ہمہ گردش ہے پس ماندۂ گردش میں
لب تشنہ کوئی یہ شے کیوں جم سے نہیں کہتا
کسب متحرک سے پابستہ نسب طغرے
یہ کیا ہے کوئی اہل خاتم سے نہیں کہتا
آ داغ محبت کے سانچے میں تجھے ڈھالوں
خاتم سے میں کہتا ہوں درہم سے نہیں کہتا
کچھ بات تھی کہنے کی کچھ بھول گیا اب میں
فطرت سے نہیں کہتا آدم سے نہیں کہتا
کہئے تو نہیں باور نا کہئے تو کافر تر
کہنے کی قسم مجھ کو کو میں ذم سے نہیں کہتا
کہلانے میں خود ان کا کچھ تکملہ نا رس ہے
الٹے انہیں شکوے ہیں کیوں ہم سے نہیں کہتا
ہاں میری یہ الجھن تو ہر دل میں کھٹکتی ہے
کچھ مڑ کے کوئی زلف برہم سے نہیں کہتا
کیوں ہو نہ جنوں کم گو جب ہوتا ہے یہ زیرک
دہراتی ہوئی باتیں محروم سے نہیں کہتا
کہنے سے ہوا گہرا کچھ اور غم پنہاں
میں سائے سے کہتا ہوں ہمدم سے نہیں کہتا
جس لمحے سے دیکھا ہے اک شعر سراپا کو
دانستہ کوئی مصرع اس دم سے نہیں کہتا
دیتے ہیں وہ محفل میں یوں داد لطیفیؔ کو
اشعار یہ کیا اکثر مبہم سے نہیں کہتا


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.