کیا گزر کیجئے صیاد دل آزار کے پاس
کیا گزر کیجئے صیاد دل آزار کے پاس
برگ گل پھینکتا ہے مرغ گرفتار کے پاس
تیرے بیمار کی بالیں پہ کھڑی ہے حسرت
موت بیٹھی نظر آتی ہے وہ غم خوار کے پاس
بار بار آ کے وہ ٹھہراتے ہیں سودا دل کا
گھر انہوں نے جو بنایا ہے تو بازار کے پاس
شاخ گل دیکھ کے سامان خلش یاد آیا
رکھ دیا پارۂ دل دل کو ہر خار کے پاس
تیرے دروازہ پہ فتنوں نے لیا دم آ کر
تھک کے بیٹھی ہے قیامت تری دیوار کے پاس
زاہدا رحمت باری بھی برنگ توبہ
آ گئی ٹوٹ کے رندان قدح خوار کے پاس
میری خواری ہی قیامت میں مرے کام آئی
کوئی آیا نہ وفاؔ مجھ سے گنہ گار کے پاس
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.
| |