کیا ہوئے عاشق اس شکر لب کے
کیا ہوئے عاشق اس شکر لب کے
طعنے سہنے پڑے ہمیں سب کے
بھولنا مت بتوں کی یاری پر
ہیں یہ بدکیش اپنے مطلب کے
قیس و فرہاد چل بسے افسوس
تھے وہ کمبخت اپنے مشرب کے
شیخیاں شیخ جی کی دیں گے دکھا
مل گئے وہ اگر کہیں اب کے
یاد رکھنا کبھی نہ بچئے گا
مل گئے آپ وقت گر شب کے
اس میں خوش ہوویں آپ یا ناخوش
یار تو ہیں سنا اسی ڈھب کے
یار بن عیشؔ مےکشی توبہ
ہے یہ اپنے خلاف مذہب کے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |