کیا ہو تسکین جو ہو تیری سکونت دل میں

کیا ہو تسکین جو ہو تیری سکونت دل میں
by صفی اورنگ آبادی

کیا ہو تسکین جو ہو تیری سکونت دل میں
رہے آغوش میں یا پیار کی صورت دل میں

موت چاہوں تو کروں سوز محبت کا علاج
کیا رہے گا نہ رہے گی جو حرارت دل میں

دل نشیں ہے جو مجھے طالب عزت ہونا
چھپ کے بیٹھا ہے کوئی صاحب عزت دل میں

دل کو سب لوگ یہ کہتے ہیں خدا کا گھر ہے
میں سمجھتا ہوں کہ ہے تیری امانت دل میں

سن رہا ہوں وہ عیادت کے لئے آتے ہیں
آج ہے پرسش اعمال کی ہیبت دل میں

توبہ توبہ میں سمجھتا تھا کہ دل ہے بیتاب
خود وہ بیتاب ہے جس کی ہے سکونت دل میں

دل میں رہنے کا تجھے حق تو ہے لیکن اے شوخ
کاش ہوتی ترے چہرے کی متانت دل میں

جانتے ہیں مری بے راہروی کے اسباب
مانتے ہیں مجھے یاران طریقت دل میں

ٹھن گئی تھی ترے اخلاق کی بے جا تعریف
اب نہ آتا تو یہ آئی تھی شرارت دل میں

ہے ابھی تک تو فقط شکوۂ دشمن اے دوست
کہیں پیدا نہ ہو کچھ اور شکایت دل میں

چاہتا ہوں جسے بن جائے اگر وہ ساقی
بڑھتی جائے ہوس کوثر و جنت دل میں

ذوق دیدار بھی کیا چیز ہے اللہ اللہ
میری آنکھوں میں بصارت ہے بصیرت دل میں

کاش من جملۂ آزار محبت نکلے
کار فرما نظر آتی ہے جو قوت دل میں

ہیں ابھی تک تمہیں دنیا کے مزے یاد صفیؔ
عاشقی کرتے ہو رکھ کر یہ ملامت دل میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse