کیجئے نہ اسیری میں اگر ضبط نفس کو
کیجئے نہ اسیری میں اگر ضبط نفس کو
دے آگ ابھی شعلۂ آواز قفس کو
بہہ جاوے لہو ہو کے دل قافلہ سالار
تعلیم دے نالہ جو مرا بانگ جرس کو
پہنچے ہے نم داغ جگر تا سر مژگاں
شاداب میں رکھتا ہوں سدا آگ سے خس کو
پھرتا ہے ادھر زلف میں شانہ تو ادھر دل
یہ دزد نہ لایا کبھو خاطر میں عسس کو
اے عشق نہ فرہاد بچا تجھ سے نہ پرویز
با خاک برابر تو کیا ناکس و کس کو
لے سکتے نہیں سانس تری کو کے مقید
تا خون جگر بیچ نہ غوطہ دیں نفس کو
ترغیب نہ کر سیر چمن کی ہمیں سوداؔ
ہر چند ہوا خوب ہے واں لیک ہوس کو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |