کیسا ہی دوست ہو نہ کہے راز دل کوئی
کیسا ہی دوست ہو نہ کہے راز دل کوئی
نکلی جو بات منہ سے تو پھیلی جہان میں
سچ سچ کہو یہ بات بنانا نہیں پسند
کیا کہہ رہے تھے غیر ابھی چپکے سے کان میں
پوچھا ہے حال زار تو سن لو خطا معاف
کچھ بات میرے ہونٹوں میں ہے کچھ زبان میں
عاشق سے پوچھیے نہ سر بزم حال دل
پردے کی بات سنتے ہیں چپکے سے کان میں
فرقت میں کیا بتاؤں کہ دن ہے کہ رات ہے
آنکھوں کو سوجھتا نہیں رونے کے دھیان میں
قصر جہاں ہے تیرے فقیروں کا جھونپڑا
محلوں سے بڑھ کے چین ہے اپنے مکان میں
دو دن کی زندگی میں جو چاہے کوئی کرے
رہ جاتی ہے بھلائی برائی جہان میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |