کیسی ہے آہ اپنی طبیعت بھری ہوئی
کیسی ہے آہ اپنی طبیعت بھری ہوئی
آنکھوں میں اشک اشک میں حسرت بھری ہوئی
اٹکھیلیاں نہ کر تو نسیم سحر کہ ہے
رگ رگ میں ان گلوں کی نزاکت بھری ہوئی
کیوں بے سبب ہجوم تمنا و یاس سے
ہے اس دل حزیں کی عمارت بھری ہوئی
کس جا کرے گا میت عشاق دفن تو
یاں ہے شہید ناز کی تربت بھری ہوئی
گر جام تو پلائے تو پینا حلال ہے
تجھ میں تو ساقیا ہے ملاحت بھری ہوئی
کیوں کر گدا نہ تیرے غنی ہوں صنم کہ ہے
دست کرم میں تیرے سخاوت بھری ہوئی
افشائے راز عشق نہ ہو خوف ہے یہی
چھپتی نہیں ہے آنکھ محبت بھری ہوئی
تم دیکھ لو جمیلہؔ کہ دل غم ہوا نہ ہو
آنکھوں میں ان کے کیوں ہے ندامت بھری ہوئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |