کیفیت دل اور ہے احوال جگر اور
کیفیت دل اور ہے احوال جگر اور
اک درد کی صورت ہے ادھر اور ادھر اور
قد سرو ہے گل چہرہ ہے نارنج ہیں پستاں
کیا لطف ہے پھل اور ہے پھول اور شجر اور
ہر عضو بدن ہے ترا نایاب زمانہ
موہوم دہن سے بھی زیادہ ہے کمر اور
شاہوں کو فقیروں پہ شرف ہو نہیں سکتا
ہاں عزت ذاتی ہے جدا عزت زر اور
سختی بھی سہو ظلم بھی اندھیر بھی دیکھو
روشنؔ یوں ہیں دنیا میں کرو چندے بسر اور
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |