کیوں خفا ہو کیوں ادھر آتے نہیں

کیوں خفا ہو کیوں ادھر آتے نہیں
by عزیز حیدرآبادی
318200کیوں خفا ہو کیوں ادھر آتے نہیںعزیز حیدرآبادی

کیوں خفا ہو کیوں ادھر آتے نہیں
دیکھتا ہوں تم نظر آتے نہیں

وہ یہ کہہ کر داغ دیتے ہیں مجھے
پھول سے پہلے ثمر آتے نہیں

ہم ہیں وہ مے نوش پی کر بھی کبھی
میکدے سے بے خبر آتے نہیں

دیکھتا ہوں ان کی صورت دیکھ کر
دھوپ میں تارے نظر آتے نہیں

نیند تو کیا نیند کے جھونکے عزیزؔ
ہجر میں وقت سحر آتے نہیں


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.