کیوں دیکھتے ہی نقش بہ دیوار بن گئے
کیوں دیکھتے ہی نقش بہ دیوار بن گئے
تم آئنے میں کس کے خریدار بن گئے
بجلی چھلاوا فتنہ قیامت غضب بلا
میں کیا کہوں وہ کیا دم رفتار بن گئے
بازار دہر کا تو یہی کاروبار ہے
دو چار اگر بگڑ گئے دو چار بن گئے
اک سیر تھی مزے کی یہ آرائشوں کے وقت
سو بار وہ بگڑ گئے سو بار بن گئے
ہاں ہاں انہیں کے پیچھے تو دی ہے شرفؔ نے جان
آ کر ہنسی خوشی جو عزا دار بن گئے
This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries). |