کیوں مشت خاک پر کوئی دل داغ دار ہو
کیوں مشت خاک پر کوئی دل داغ دار ہو
مر کر بھی یہ ہوس کہ ہمارا مزار ہو
بڑھ جائے غم کا سلسلہ کہسار کی طرح
طولانی گر یہ زندگئ مستعار ہو
اس صید گاہ میں وہی نکلے گا بچ کے صاف
جو صید سب سے پہلے اجل کا شکار ہو
اس بوالہوس کی موت کے قربان جائیے
جو پھر دوبارہ جینے کا امیدوار ہو
ہستی کا طوق تو ہے قیامت پس وفات
یارب کہیں یہ میرے گلے کا نہ ہار ہو
یکساں ہے اہل دل کے لیے انبساط و غم
باغ جہاں میں آئے خزاں یا بہار ہو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |