کیوں نہ لے گلشن سے باج اس ارغواں سیما کا رنگ

کیوں نہ لے گلشن سے باج اس ارغواں سیما کا رنگ
by میر محمدی بیدار

کیوں نہ لے گلشن سے باج اس ارغواں سیما کا رنگ
گل سے ہے خوش رنگ تر اس کے حنائی پا کا رنگ

جوں ہی منہ پر سے اٹھا دی باغ میں آ کر نقاب
اڑ گیا رنگ چمن دیکھ اس رخ زیبا کا رنگ

سر پہ دستار بسنتی بر میں جامہ قرمزی
کھب گیا دل میں ہمارے اس گل رعنا کا رنگ

آج ساقی دیکھ تو کیا ہے عجب رنگین ہوا
سرخ مے کالی گھٹا اور سبز ہے مینا کا رنگ

دے تو اس ابر سیہ میں جام جلدی سے مجھے
دل بھرا آتا ہے میرا دیکھ کر صہبا کا رنگ

جس طرف دیکھوں ہوں اب بیدارؔ تیرے اشک سے
ہو رہا ہے سرخ یکسر دامن صحرا کا رنگ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse