کیوں کرتے ہو دنیا کی ہر اک بات سے توبہ

کیوں کرتے ہو دنیا کی ہر اک بات سے توبہ
by داغ دہلوی

کیوں کرتے ہو دنیا کی ہر اک بات سے توبہ
منظور تو ہے میری ملاقات سے توبہ

زاہد نے چھپایا ہے اسے گوشۂ دل میں
بھاگی تھی کسی رند خرابات سے توبہ

یہ فصل اگر ہوگی تو ہر روز پئیں گے
ہم مے سے کریں توبہ کہ برسات سے توبہ

دنیا کی کوئی بات ہی اچھی نہیں زاہد
اس بات سے توبہ کبھی اس بات سے توبہ

مسجد نہیں دربار ہے یہ پیر مغاں کا
دروازے کے باہر رہے اوقات سے توبہ

یہ داغؔ قدح خوار کے کیا جی میں ہے آئی
سنتے ہیں کئے بیٹھے ہیں وو رات سے توبہ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse