کیوں کہوں قامت کو تیرے اے بت رعنا الف
کیوں کہوں قامت کو تیرے اے بت رعنا الف
اور کچھ خوبی نہیں رکھتا ہے اک سیدھا الف
جیسا ہے اس برہمن زادے کے قشقے کا الف
لکھ نہیں سکتا ہے کوئی خوش نویس ایسا الف
جب سے دی تعلیم گریہ اوستاد عشق نے
تختۂ سینہ پہ طفل اشک نے کھینچا الف
وصف بینی میں یہ کیا مصرع زباں پر آ گیا
اس کی بینی ہے بلند اور اس سے ہے چھوٹا الف
گرد ہے نقش و نگار چین ان کے رو بہ رو
ہیں ردائے فقر پر اس طرح کے زیبا الف
قتل کو عاشق کے انگشت اشارت کر بلند
تیری انگشت اشارت ہے شہادت کا الف
سرکشی کرتا ہے یوں ہر آن میرا نفس شوم
جس طرح سے دم بہ دم ہو جائے ہے گھوڑا الف
اتنے پر بھی ذات واحد سے ہیں غافل ناقصاں
کھنچ رہا ہے موئے تن سے تن پہ سر تا پا الف
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |