کیوں ہے کہہ آئینہ اس درجہ تو حیراں مجھ سے

کیوں ہے کہہ آئینہ اس درجہ تو حیراں مجھ سے
by عشق اورنگ آبادی

کیوں ہے کہہ آئینہ اس درجہ تو حیراں مجھ سے
اپنی روداد کو مت کیجیو پنہاں مجھ سے

ہوں ہوا خواہ میں اے گل ترا جیوں موج نسیم
غنچہ ساں کب ہے گرہ کا ترے نقصاں مجھ سے

چشم مست اس کی نے دل توڑ کے پھیری ہے نظر
کہ نہ مانگے کہیں اس شیشہ کا تاواں مجھ سے

تیر نے خواب میں ہمدرد جو پایا اپنا
درد دل کہنے لگا ہو کے وہ گریاں مجھ سے

رم کا ہرنوں کے بگولے کی بھی بیتابی کا
راز سب واز کیا پھاڑ گریباں مجھ سے

گرم رکھتا تھا کہا مدرسہ جب وادی کا
علم وحشت کئے تحصیل غزالاں مجھ سے

سر پر اب خاک اڑاتا ہوا پھرتا ہوں عشقؔ
صاف دیکھا تو نہ تھی خاطر یاراں مجھ سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse