کی طلب اک شہہ نے کچھ پند از حکیم نکتہ داں
کی طلب اک شہہ نے کچھ پند از حکیم نکتہ داں
اس نے سن کے یوں کہا اے صاحب اقبال و شاں
یاد رکھ اور پاس رکھ اور سخت رکھ اور جمع کر
کھا چھپا، کاٹ اور اٹھا، دے لے، بخوبی ہر زماں
اس نے اس مجمل کے تفصیلات جب پوچھے تو پھر
لطف سے اس نکتہ رس نے یوں کیا اس کا بیاں
یاد رکھ ہر دم خدا کو پاس رکھ حسن وفا
سخت رکھ دیں کو مدام اور جمع کر علم اے جواں
کھا غضب غصہ چھپا عیب رفیق و آشنا
کاٹ ربط ہم نشین بد کہ ہے اس میں زیاں
اور اٹھا ہر دم ضعیف و ناتواں سے ظلم و جور
داد مظلوموں کی دے اور لے بہشت جاوداں
نثر میں مجھ کو نظیرؔ آئے تھے یہ نکتے نظر
میں نے نظم ان کو کیا تو دل ہو ہر دم شادماں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |