گئی جو طفلی تو پھر عالم شباب آیا
گئی جو طفلی تو پھر عالم شباب آیا
گیا شباب تو اب موسم خضاب آیا
میں شوق وصل میں کیا ریل پر شتاب آیا
کہ صبح ہند میں تھا شام پنچ آب آیا
کٹا تھا روز مصیبت خدا خدا کر کے
یہ رات آئی کہ سر پہ مرے عذاب آیا
کہاں ہے دل کو عبث ڈھونڈھتے ہو پہلو میں
تمہارے کوچے میں مدت سے اس کو داب آیا
کسی کی تیغ تغافل کا میں وہ کشتہ ہوں
نہ جاگا نیزے پہ سو بار آفتاب آیا
نظر پڑی نہ مری رعب حسن سے رخ پر
اگرچہ سامنے میرے وو بے نقاب آیا
ہمیشہ صورت انجم کھلی رہیں آنکھیں
فراق یار میں کس روز مجھ کو خواب آیا
ہوا یقیں کہ زمیں پر ہے آج چاند گہن
وو ماہ چہرہ پہ جب ڈال کر نقاب آیا
ہوئے جو دیدۂ گریہ سے اپنے اشک رواں
گماں ہوا کہ برستا ہوا سحاب آیا
بنا تصور لیلیٰ بہ صورت تصویر
کبھی جو قیس کی آنکھوں میں شب کو خواب آیا
وہ زود رنج ہے اس کو نہ چھیڑنا رعناؔ
ملو گے ہاتھ اگر بر سر عتاب آیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |