گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیونکر ہو

گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیونکر ہو
by مرزا غالب
298984گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیونکر ہومرزا غالب

گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیوںکر ہو
کہے سے کچھ نہ ہوا، پھر کہو تو کیوں کر ہو

ہمارے ذہن میں اس فکر کا ہے نام وصال
کہ گر نہ ہو تو کہاں جائیں؟ ہو تو کیوں کر ہو

ادب ہے اور یہی کشمکش، تو کیا کیجے
حیا ہے اور یہی گومگو تو کیوں کر ہو

تمہیں کہو کہ گزارا صنم پرستوں کا
بتوں کی ہو اگر ایسی ہی خو تو کیوں کر ہو

الجھتے ہو تم اگر دیکھتے ہو آئینہ
جو تم سے شہر میں ہوں ایک دو تو کیوں کر ہو

جسے نصیب ہو روزِ سیاہ میرا سا
وہ شخص دن نہ کہے رات کو تو کیوں کر ہو

ہمیں پھر ان سے امید، اور انہیں ہماری قدر
ہماری بات ہی پوچھیں نہ وو تو کیوں کر ہو

غلط نہ تھا ہمیں خط پر گماں تسلّی کا
نہ مانے دیدۂ دیدار جو، تو کیوں کر ہو

بتاؤ اس مژہ کو دیکھ کر کہ مجھ کو قرار
یہ نیش ہو رگِ جاں میں فِرو تو کیوں کر ہو

مجھے جنوں نہیں غالبؔ ولے بہ قولِ حضور
“فراقِ یار میں تسکین ہو تو کیوں کر ہو”


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.