گئے سب بھول شکوے دیکھ روئے یار کیا کہیے
گئے سب بھول شکوے دیکھ روئے یار کیا کہیے
زباں حیرت سے میری ہو گئی بے کار کیا کہیے
تبسم میں جو اس کا منہ کھلا دل بندھ گیا ووہیں
مرا دل لے گیا ہنستے ہی ہنستے یار کیا کہیے
اگر اس کی جگہ پہلو میں ہوتا خار بہتر تھا
بہت دیتا ہے میرا دل مجھے آزار کیا کہیے
جلا کر آشیاں اس فصل گل میں باغباں میرا
جہنم تو نے مجھ پر کر دیا گلزار کیا کہیے
یقیںؔ کے واقعے کی سن خبر وہ بد گماں بولا
یہ دیوانہ تو کچھ ایسا نہ تھا بیمار کیا کہیے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |