گالی سہی ادا سہی چین جبیں سہی
گالی سہی ادا سہی چین جبیں سہی
یہ سب سہی پر ایک نہیں کی نہیں سہی
مرنا مرا جو چاہے تو لگ جا گلے سے ٹک
اٹکا ہے دم مرا یہ دم واپسیں سہی
گر نازنیں کے کہنے سے مانا برا ہو کچھ
میری طرف کو دیکھیے میں نازنیں سہی
کچھ پڑ گیا ہے آنکھ میں رونا کہے ہے تو
کیوں میں عبث کو بحثوں یہی دل نشیں سہی
آگے بڑھے جو جاتے ہو کیوں کون ہے یہاں
جو بات ہم کو کہنی ہے تم سے یہیں سہی
منظور دوستی جو تمہیں ہے ہر ایک سے
اچھا تو کیا مضایقہ انشاؔ سے کیں سہی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |