گدائے دولت دیدار یار ہم بھی ہیں
گدائے دولت دیدار یار ہم بھی ہیں
ہمیں نہ بھولیو امیدوار ہم بھی ہیں
جو بندہ پرور و ذرہ نواز یار ہو تم
تو یہ بھی دھیان رہے خاکسار ہم بھی ہیں
جگہ دو ہم کو بھی رہنے کو طور پر موسیٰ
بشر ہیں بندۂ پروردگار ہم بھی ہیں
ہزار شکر قلم بند ہیں شہیدوں میں
زہے شرف کہ ترے جاں نثار ہم بھی ہیں
پسند آئی ہے پروانوں کی جو بیتابی
ادھر بھی دیکھ لو تم بے قرار ہم بھی ہیں
تمام عمر ہماری نہ آنکھ جھپکے گی
جوان معرکۂ انتظار ہم بھی ہیں
انہیں کی بو سے معطر دماغ ہے اپنا
وہ رشک گل ہیں تو باغ و بہار ہم بھی ہیں
لپٹ ہی جاؤ گلے سے ہمارے خلوت میں
اکیلے تم بھی ہو اس وقت یار ہم بھی ہیں
جہاں میں تھے رخ روشن کے تیرے پروانے
امیدوار چراغ مزار ہم بھی ہیں
کبھی نہ لکھیو اشارہ بھی ہم کو چشمک کا
جواب لکھنے میں جادو نگار ہم بھی ہیں
خبر ہے حسن پرستوں کو وہ نوازیں گے
ہزار شکر کہ امیدوار ہم بھی ہیں
غبار دن کو ہیں شب کو چمن میں ہیں خوشبو
عجب دورنگیٔ لیل و نہار ہم بھی ہیں
نشانہ تاکے گا کوئی تو دل پکارے گا
کسی کے تیر کے قابل شکار ہم بھی ہیں
بہار گل میں شہیدوں کی روحیں کہتی ہیں
شرفؔ مٹے ہوے نقش و نگار ہم بھی ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |