گردش دوراں سے یہاں کس کو فراغ آیا ہے ہاتھ

گردش دوراں سے یہاں کس کو فراغ آیا ہے ہاتھ
by عاشق اکبرآبادی

گردش دوراں سے یہاں کس کو فراغ آیا ہے ہاتھ
ہاں مگر آیا تو اک حسرت کا داغ آیا ہے ہاتھ

نوحہ سنجی کی بھی مہلت عندلیبوں میں نہیں
باغباں قسمت سے کیا ہے بے دماغ آیا ہے ہاتھ

عمر گزری جستجوے کوچۂ دلدار میں
وائے ناکامی پس از مردن سراغ آیا ہے ہاتھ

دل کے داغوں نے کیا ہم کو چمن سے بے نیاز
منتیں مانی ہیں برسوں تب یہ باغ آیا ہے ہاتھ

داغ دل پر نالہ لب پر چشم گریاں سینہ ریش
عاشقؔ شوریدہ کو کس دم فراغ آیا ہے ہاتھ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse