گرد باد افسوس کا جنگل سے ہے پیدا ہنوز
گرد باد افسوس کا جنگل سے ہے پیدا ہنوز
ہات ملتا ماتم مجنوں سے ہے صحرا ہنوز
جوں صدف ہے گرچہ آنکھوں میں سجن بستا ہنوز
کھولتا نیں عقدۂ دل وہ در یکتا ہنوز
جب پتا پوچھوں میں گھر کا یار ہرجائی سیتی
دو دلا کرنے کوں کہتا ہے مجھے جا جا ہنوز
طوق و پیچ زلف لیلہ ہے بگھولے سے عیاں
خاک مجنوں سے نیاز و ناز ہے رسوا ہنوز
گرچہ مثل شبنم گل دل دیا ہوں پی کے ہات
وہ رنگیلا کھولتا نیں عقدۂ سیما ہنوز
جان شیریں سے شرر تن میں جلاتا ہے مدام
طاعن کم ظرفئ فرہاد ہے خارا ہنوز
داغ دل عزلتؔ کو جوں لالہ ہے بلبل بن بہار
ان گلوں سے جی کسی رنگوں نہیں لگتا ہنوز
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |