گرم سوٹ
سنگھ نے چونکہ ایک زمانے سے اپنے کپڑے تبدیل نہیں کیے تھے۔ اس لیے پسینے کے باعث ان میں ایک عجیب قسم کی بو پیدا ہوگئی تھی جو زیادہ شدّت اختیار کرنے پر اب گنڈا سنگھ کو کبھی کبھی اداس کردیتی تھی۔ اس کو اس بدبو نے کبھی اتنا تنگ نہیں کیا تھا جتناکہ اب اس کے گرم سوٹ نے اسے تنگ کر رکھا تھا۔
اپنے کسی دوست کے کہنے پر وہ امرتسر چھوڑ کر دہلی چلا آیا تھا۔ جب اس نے امرتسر کو خیرباد کہا تو گرمیوں کا آغاز تھا، لیکن اب کے گرمی اپنے پورے جوبن پر تھی، گنڈا سنگھ کو یہ گرم سوٹ بہت ستارہا تھا۔
اس کے پاس صرف چار کپڑے تھے۔ گرم پتلون، گرم کوٹ، گرم واسکٹ اور ایک سوتی قمیص۔ یہ گرم سوٹ اسے اس لیے دہلی کی شدید گرمیوں میں پہننا پڑتا تھا کہ اس کے پاس اور کوئی کپڑا ہی نہیں تھا اور سوٹ کے ساتھ کی واسکٹ اسے اس لیے پہننا پڑتی تھی کہ اس کے پاس کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں وہ اسے احتیاط یا بداحتیاطی سے رکھ سکتا۔ یوں تو وہ اس واسکٹ کو یا کوٹ ہی کو دریبہ کلاں میں اپنے دوست کی دکان میں رکھ دیتا مگر وہاں اس نے پہلے روز ہی کئی چوہے دیکھے تھے۔ دہلی آنے کے دوسرے روز چاندنی چوک میں اس نے رس گلے کھائے تھے۔ ان کا شیرہ جابجا کوٹ اور واسکٹ پر گر پڑا تھا۔ اگر وہ یہ دونوں چیزیں اس دکان میں رکھ دیتا تو ظاہر ہے کہ جہاں شیرہ گرا تھا، چوہے کپڑا کتر جاتے اور گنڈا سنگھ نہیں چاہتا تھا کہ یہ سوٹ جو اسے تین ستمبر1939ء یعنی اس جنگ کے ابتدائی روز ملا تھا یوں بیکار چوہوں کی نذر ہو جائے۔ اس سوٹ کے ساتھ اتفاقیہ طور پر ایک ایسا دن منسوب ہوگیا تھا جو تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔
گنڈا سنگھ کو چنانچہ اس لیے بھی اپنا سوٹ عزیزتھا کہ امرتسر میں جب اس نے اپنا یہ تاریخی سوٹ پہنا تھا تو دربار صاحب کے آس پاس اس کے جتنے ہاتھی دانت کا کام کرنے والے دوست رہتے تھے، متحیر ہوگئے تھے۔ بلبیر نے جب اسے بازار میں دیکھا تھا تو متحرک خراد کو روک کر زور سے آواز دی تھی، ’’گنڈا سیاں گنڈا سیاں ذرا ادھر تو آ۔۔۔ یہ آج تجھے کیا ہوگیا ہے؟‘‘
گنڈا سنگھ لباس کے معاملے میں از حد بے پروا تھا بلکہ یوں کہیے کہ اپنے لباس کی طرف اس نے کبھی توجہ ہی نہ دی تھی۔ وہ پتلون اسی طرح پہنا کرتا تھا جس طرح کَچھ پہنی جاتی ہے یعنی بغیر کسی تکلف کے۔ اس کے متعلق اس کے دوستوں میں یہ بات عام مشہور تھی کہ اگر تن ڈھکنا ضروری نہ ہوتا تو گنڈا سنگھ بالکل ننگا رہتا۔
چھ چھ مہینے تک وہ نہاتا نہیں تھا۔ بعض اوقات اس کے پیروں پر اس قدر میل جم جاتا تھا کہ اور میل جمنے کی گنجائش ہی نہیں رہتی تھی۔ دور سے اگر آپ اس کے میلے پیروں کو دیکھتے تو یہی معلوم ہوتا کہ گنڈا سنگھ نے موزے پہن رکھے ہیں۔گنڈا سنگھ کی غلاظت پسندی کی انتہا یہ تھی کہ وہ صبح کا ناشتہ منہ ہاتھ دھوئے بغیر کرتا تھا اور سردیوں میں ایک ایسا لحاف اوڑھ کر سوتا تھا کہ اگر کوئی اسے کوڑے پر پھینک دے تو صبح جب بھنگی کوڑا کرکٹ اٹھانے آتا تو یہ لحاف دیکھ کر اس کو بھی گِھن آجاتی، پر لطف یہ ہے کہ اس کی ان تمام غلاظتوں کے باوجود لوگ اس سے محبت کرتے تھے اور امرتسر میں تو آپ کو ایسے کئی آدمی مل جائیں گے جو اس کو محبت کی حد تک پسند کرتے ہیں۔
گنڈا سنگھ کی عمر زیادہ سے زیادہ پچیس برس ہے۔ داڑھی اور مونچھوں کے بھوسلے بال اس کے چہرے کے دو تہائی حصے پر موبل آئل میں بھیگے ہوئے چیتھڑے کی طرح پھیلے رہتے ہیں۔ پگڑی کے نیچے اس کے کیسوں کی بھی یہی حالت رہتی ہے۔ کبھی کبھی جب اس کی پنڈلیاں کپڑا اٹھ جانے کے باعث ننگی ہو جاتی ہیں تو ان پر میل کھرنڈوں کی شکل میں جا بجا نظر آتا ہے، مگر لوگ ان تمام میلی اور گندی حقیقتوں سے با خبر ہونے پر بھی گنڈا سنگھ کو اپنے پاس بٹھاتے ہیں اور اس سے کئی کئی گھنٹے باتیں کرتے ہیں۔
امرتسر چھوڑ کرجب گنڈا سنگھ اپنے گرم سوٹ سمیت دہلی آیا تو اسے غیر شعوری طور پر معلوم تھا کہ یہاں بھی خود بخود اس کے دوست پیدا ہو جائیں گے۔ اگر اس کو اپنی غلاظت پسندیوں کا احساس ہوتا تو بہت ممکن ہے یہ احساس رکاوٹ بن جاتا اور دہلی میں اس کا کوئی دوست نہ بنتا۔
چند ہی دنوں میں بظاہر کسی وجہ کے بغیر آٹھ دس آدمی گنڈا سنگھ کے دوست بن گئے اور گنڈا سنگھ کو اس بات کا مطلق احساس نہ ہوا کہ اگر یہ آٹھ دس آدمی اس کے دوست نہ بنتے تو شہر دہلی میں وہ بھوکوں مرتا۔ روٹی کے مسئلے پر دراصل گنڈا سنگھ نے کبھی غور ہی نہیں کیا تھا اور نہ اس نے کبھی یہ جاننے کی تکلیف کی تھی کہ دوسرے اس کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں۔ کھانا، پینا اور سونا، یہ تین چیزیں ایسی تھیں جو گنڈا سنگھ کو چلتے پھرتے کہیں نہ کہیں ضرور مل جاتی تھیں اور ایک زمانے سے چونکہ یہ چیزیں اسے بڑی باقاعدگی کے ساتھ مل رہی تھیں اس لیے ان کے متعلق وہ کبھی سوچتا ہی نہیں تھا۔
چاوڑی میں ہربنس سے ملنے گیا تو وہاں صبح کا ناشتہ مل گیا۔ ہربنس کے یہاں سے آیا تو راستے میں احمد علی نے اپنی دکان پر ٹھہرا لیا اور کہا، ’’گنڈا سنگھ، بھئی تم خوب وقت پر آئے، میں نے دھنّا مل سے کچھ چاٹ منگوائی ہے، کھاکے جانا۔‘‘ احمد علی کی دکان پر چاٹ کھانے کے بعد گنڈا سنگھ کے دل میں خیال آیا کہ چلو ہیم چندر سے ملنے چلیں۔ ہیم چندر بہت اچھا افسانہ نگار ہے اور گنڈا سنگھ کے دل میں اس کی بہت عزت ہے۔ چنانچہ جب اس سے ملاقات ہوئی تو باتوں باتوں میں دوپہر کے کھانے کا وقت آگیا۔ دعوت دینے اور دعوت قبول کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوا۔ کھانا آیا اور دونوں نے مل کر کھالیا۔ یہاں سے جب گنڈا سنگھ تمار پور کی طرف روانہ ہوا تو راستے میں باغ آگیا۔ دھوپ چونکہ بہت کراری تھی، اس لیے گنڈا سنگھ جب کچھ دیر سستانے کے لیے نکلسن باغ کے ایک بنچ پر لیٹا تو پانچ بجے تک وہیں سویا رہا۔ آنکھیں مل کر اٹھا اور آہستہ آہستہ تمار پور کا رخ کیا جہاں اس کا دوست عبدالمجید رہتا تھا۔
چھ بجے کے قریب گنڈا سنگھ عبدالمجید کے گھر پہنچا۔ وہاں جنگ کی باتیں شروع ہوئیں، چنانچہ آٹھ بج گئے۔ عبدالمجید بہت ہوشیار آدمی تھا۔ ہندوستان کے ترقی پسند لٹریچر کے بارے میں اس کی معلومات کافی وسیع تھیں مگرجنگ کے متعلق اسے کچھ معلوم نہیں تھا۔ کوشش کرنے کے باوجود وہ چین اور جاپان، جاپان اور روس، روس اور جرمنی، جرمنی اور فرانس کے جغرافیائی رشتے کو نہ سمجھ سکا تھا۔ جب کبھی وہ دنیا کا نقشہ کھول کر اپنے سامنے رکھتا تو اس کی نگاہوں میں نقشے پر پھیلے ہوئے شہر اور ملک ایسے الجھاؤ کی صورت اختیار کرلیتے جو اکثر اوقات پتنگ اڑانے کے دوران میں اس کی ڈور میں پیدا ہو جایاکرتے تھے مگر گنڈا سنگھ کو دنیا کے جغرافیہ پر کافی عبور حاصل تھا۔ ایک بار اخبار پڑھ لینے کے بعد جنگ کا صحیح نقشہ اس کے ذہن میں آجاتا تھا اور وہ بڑے سہل انداز میں لوگوں کو سمجھا سکتا تھا کہ جنگ کے میدان میں کیا ہورہا ہے۔
عبدالمجید طبعاً نفاست پسند تھا، اس کو گنڈا سنگھ کی غلاظتیں بہت کُھٹکتی تھیں، مگر وہ مجبور تھا اس لیے کہ گنڈا سنگھ ہی ایک ایسا آدمی تھاجو اسے جنگ کے تازہ حالات سمجھا سکتا تھا۔ اگر عبدالمجید کوجنگی خبریں سننے اور ان پر تفصیلی بحث کرنے کی عادت نہ ہوتی جو ایک بہت بڑی کمزوری کی شکل اختیار کر چکی تھی تو وہ یقیناً اس آدمی سے کبھی ملنا پسند نہ کرتا جو کھانا کھانےکے بعد سالن سے بھرے ہوئے ہاتھ اس کے کمرے میں لٹکے ہوئے پردوں سے صاف کرتا تھا۔ ایک دفعہ عبدالمجید نے پردوں کواس کے حملے سے محفوظ رکھنے کی خاطر اپنا تولیہ آگے بڑھا دیا اور کہا، ’’لو گنڈا سنگھ، اس سے ہاتھ صاف کرلو۔ کچھ دیر اگر ٹھہر سکو تو پانی اور صابن آرہا ہے۔‘‘
گنڈا سنگھ نے اس انداز سے تولیہ عبدالمجید سے لیا جیسے اس کی ضرورت ہی نہیں تھی اور ایک منٹ میں اپنا منہ ہاتھ صاف کرکے اسے ایک طرف پھینک دیا، ’’پانی وانی کی کوئی ضرورت نہیں، ہاتھ صاف ہی تھے۔‘‘ عبدالمجید نے جب زہر کے گھونٹ پی کر اپنے تولیے کی طرف دیکھا تو اسے ایسا معلوم ہوا کہ منہ ہاتھ صاف کرنے کے بجائے کسی نے اس کے ساتھ سائیکل کی چین صاف کی ہے۔
عبدالمجید کی بیوی کو گنڈا سنگھ کی یہ مکروہ عادات سخت ناپسند تھیں۔ مگر وہ بھی مجبور تھی اس لیے کہ جس روز گنڈا سنگھ نہیں آتا تھا عبدالمجید اسے اپنے پاس بٹھا کر جنگ کے تازہ حالات پر ایک طویل لیکچر دینا شروع کردیتا تھا، جو اس امن پسند عورت کو طوعاً و کرہاً سارے کا سارا سننا ہی پڑتا تھا۔
گنڈا سنگھ ذہین آدمی تھا۔ ادب اور سیاست کے بارے میں اس کی معلومات اوسط آدمی سے بہت زیادہ تھیں۔ امرتسر میں اس کے اس گرم سوٹ کا سودا بھی ان معلومات کے ذریعے ہی سے ہوا تھا۔ محمد عمر ٹیلر ماسٹر کو جنگی خبریں سننے کا خبط تھا، چنانچہ گنڈا سنگھ نے جنگ کے ابتدائی حالات سنا سنا کر محمد عمر کو اس قدر مرعوب کیا کہ اس نے یہ گرم سوٹ (جو کسی گاہک نے37ء میں تیارکرایا تھا اور دو برس سے اس کے پاس بیکار پڑا تھا چونکہ اس گاہک نے پھر کبھی شکل ہی نہیں دکھائی تھی) گنڈا سنگھ کے جسم پر فٹ کردیا اور اس کے ساتھ پانچ روپے ماہوار کی چھ قسطیں مقرر کرلیں۔
ان چھ قسطوں میں سے صرف تین قسطیں گنڈا سنگھ نے ادا کی تھیں، باقی تین قسطوں کے لیے محمد عمر کئی بار تقاضا کر چکا تھا مگر ان رسمی تقاضوں کے علاوہ محمد عمر نے گنڈا سنگھ پر کبھی دباؤ نہیں ڈالا تھا۔ اس لیے کہ جنگ کے حالات دن بدن دلچسپ ہوتے جارہے تھے۔ گنڈا سنگھ نے امرتسر کیوں چھوڑا، ایک لمبی کہانی ہے۔ دہلی میں جو اس کے نئے دوست بنے تھے ان کو صرف اتنا معلوم تھا کہ امرتسر میں ایک پرانے دوست کے کہنے پر وہ یہاں چلا آیا تھا کہ ملازمت تلاش کرے۔
دہلی آکر گنڈا سنگھ ملازمت کی جستجو کرتا مگر یہ کم بخت گرم سوٹ اسے چین نہیں لینے دیتا تھا۔ اس قدر گرمی پڑ رہی تھی کہ چیل انڈا چھوڑ دے۔ کچھ دنوں سے گرمی کی انتہا ہوگئی تھی۔ لوگ سن اسٹروک سے مررہے تھے۔ گنڈا سنگھ کو موت کا اتنا خیال ہی نہیں تھا جتنا کہ اسے اس تکلیف کا خیال تھا جو گرمی کی شدت کے باعث اسے اٹھانا پڑ رہی تھی۔ بازاروں میں دھوپ پگھلی ہوئی اگنی کی طرح پھیلی رہتی تھی۔ لو اس غضب کی چلتی تھی کہ منہ پر آگ کے چانٹے سے پڑتے تھے۔ لُک پھری سڑکیں توے کے مانند تپتی رہتی تھیں۔ ان سب کے اوپر فضا کی وہ گرم گرم اداسی تھی جو گنڈا سنگھ کو بہت پریشان کرتی تھی۔
اگر اس کے پاس یہ گرم سوٹ نہ ہوتا تو الگ بات تھی، شدید گرمیوں کا یہ موسم کسی نہ کسی حیلے کٹ ہی جاتا پر اس سوٹ کی موجودگی میں جس کا رنگ اس کی بھوسلی داڑھی سے بھی زیادہ گہرا تھا۔ اب ایک دن بھی دہلی میں رہنا اسے دشوار معلوم ہوتا تھا۔ اس سوٹ کارنگ سردیوں میں بہت خوشگوار معلوم ہوتا تھا پر اب گنڈا سنگھ کو اس سے ڈر لگتا تھا۔
سوٹ کا کپڑا بہت کھردرا تھا، کوٹ کا کالر گھسنے کے باعث بالکل ریگ مار کی صورت اختیار کرگیا تھا۔ اس سے گنڈا سنگھ کو بہت تکلیف ہوتی تھی۔ یہ گھسا ہوا کالر ہر وقت اوپر نیچے ہو کراس کی گردن کے بال مونڈتا رہتا تھا۔ایک دو دفعہ جب غضب کی گرمی پڑی تو گنڈا سنگھ کے جی میں آئی کہ یہ گرم سوٹ اتار کر کسی ایسی جگہ پھینک دے کہ پھر اسے نظر نہ آئے مگر یہ سوٹ اگر وہ اتار دیتا تو اس کی جگہ پہنتا کیا۔ اس کے پاس تو اس سوٹ کے سوا اورکوئی کپڑا ہی نہیں تھا۔ یہ مجبوری گرمی کے احساس میں اور زیادہ اضافہ کردیتی تھی اور بے چارہ گنڈا سنگھ تلملا کے رہ جاتا تھا۔
دہلی میں اس کے چند دوستوں نے اس سے پوچھا تھا، ’’بھئی گنڈا سنگھ! تم یہ گرم سوٹ کیوں نہیں اتارتے کیا تمہیں گرمی نہیں لگتی؟‘‘ گنڈا سنگھ چونکہ ذہین آدمی تھا، اس لیے اس نے یوں جواب دیا تھا، ’’گرم کپڑا گرمی کی شدت کو روکتا ہے اسی لیے میں یہ گرم سوٹ پہنتا ہوں۔ سن اسٹروک کا اثر ہمیشہ گردن کے نچلے حصہ پر پڑتا ہے جہاں حرام مغز ہوتا ہے۔ اگرجسم کے اس حصے پر گرم کپڑے کی ایک موٹی سی تہہ جمی رہے تو سورج کے اس حملے کا بالکل خدشہ نہیں رہتا۔ افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں انگریز وغیرہ سولر ہیٹ کے پچھلے حصے کے ساتھ ایک کپڑا لٹکا دیتے ہیں کہ لو سے بچے رہیں۔ عرب میں سر کے لیے ایک خاص پہناوا مروج ہے۔ ایک بڑا سا رومال ہوتا ہے جو گردن کو ڈھانپے رہتا ہے۔
ہندوستان کے ان حصوں میں جہاں شدید گرمی پڑتی ہے پگڑی کا استعمال اب تک چلا آرہا ہے۔ شملہ چھوڑنے کا دراصل مطلب یہی تھا کہ گردن لو سے محفوظ رہے۔ مگر اب لوگوں نے شملہ چھوڑنا قریب قریب ترک کردیا ہے اس لیے کہ اسے فضول سمجھا گیا ہے۔ اور بغیر شملہ چھوڑے پگڑی باندھنا جدید فیشن بن گیا ہے۔ میں خود اس فیشن کا شکار ہوں۔‘‘
یہ فاضلانہ جواب سن کر اس کے دوست بہت مرعوب ہوئے تھے، چنانچہ پھر کبھی انھوں نے گنڈا سنگھ سے اس کے سوٹ کے بارے میں استفسار نہ کیا تھا۔ گنڈا سنگھ جس کو اپنی معلومات کا مظاہرہ کرنے کا شوق تھا اس وقت یہ جواب دے کر بہت مسرور ہوا تھا مگر یہ مسرت فوراً ہی اس سوٹ کی تکلیف دہ گرمی نے غائب کردی تھی۔
عبدالمجید تمار پور یعنی شہر کے مضافات میں رہتا تھا جہاں کھلی فضا میسر آسکتی ہے۔ ایک رات جب تازہ جنگی حالات پر تبصرہ کرتے کرتے دیر ہوگئی تو عبدالمجید نے گنڈا سنگھ کے لیے برآمدے کے باہر ایک چارپائی بچھوا دی۔ کوٹ اور واسکٹ اتار کر وہ پتلون سمیت اس چارپائی پر صبح چھ بجے تک سویا رہا۔ رات بڑے آرام میں کٹی۔ کھلی فضا تھی اس لیے ساری رات خنک ہوا کے جھونکے آتے رہے۔ گنڈا سنگھ کو یہ جگہ پسند آئی چنانچہ اس نے شام کو دیر سے آنا شروع کردیا۔
عبدالمجید کی بیوی نے دس بارہ روز تک گنڈا سنگھ کا وہاں سونا برداشت کیا۔ لیکن اس کے بعد اس سے رہا نہ گیا۔ عبدالمجید سے اس نے صاف صاف کہہ دیا، ’’اصغر کے ابا۔ اب پانی سر سے گزر چکا ہے۔ میں اس موئے گنڈا سنگھ کا آنا یہاں بالکل پسند نہیں کرتی۔ مکان ہے یا سرائے ہے۔۔۔؟ یعنی وہ عین کھانے کے وقت آجاتا ہے، ادھر ادھر کی باتیں آپ سے کرتا ہے اور چارپائی بچھوا کر سو جاتا ہے۔۔۔ میں اس کی غلاظتیں برداشت کرسکتی ہوں مگر اس کا یہاں سونا بالکل برداشت نہیں کرسکتی۔ سنا آپ نے۔ اگر کل وہ یہاں آیا تو میں خود اس سے کہہ دوں گی کہ سردار صاحب، جنگ کے متعلق آپ باتیں کرنا چاہتے ہیں، شوق سے کیجیے، کھانا حاضر ہے، تولیے، دروازوں کے پردے،گدیوں کے غلاف، یہ تمام چیزیں بڑے شوق سے منہ پونچھنے کے لیے استعمال کیجیے مگررات کو آپ یہاں ہرگز نہیں سو سکتے۔۔۔ اصغر کے ابا، میں خدا کی قسم کھا کے کہتی ہوں میں بہت تنگ آگئی ہوں۔‘‘
عبدالمجید کو خود گنڈا سنگھ کا وہاں سونا برا معلوم ہوتا تھا اس لیے کہ اس کی بیوی پرلی طرف آنگن میں اکیلی پڑی رہتی تھی مگر وہ کیا کرتا جبکہ جنگ کی دلچسپ باتیں کرتے کرتے دیر ہو جاتی تھی اور گنڈا سنگھ بغیر کسی تکلیف کے جیسے کہ اس کا روزانہ کا معمول ہو، اس سے کہہ دیتا تھا، ’’بھائی عبدالمجید اب تم سو جاؤ۔ صبح اٹھ کر تازہ اخبار دیکھیں گے تو نئے حالات کا کچھ پتہ چلے گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ برآمدے میں سے چارپائی نکالتا اور باہر بچھا کر سوجاتا۔
جب عبدالمجید کی بیوی اس پر بہت برسی تو اس نے کہا، ’’جانِ من، میں خود حیران ہوں کہ اس کو کس طرح منع کروں۔ یہاں دہلی میں اس کا کوئی ٹھور ٹھکانہ نہیں۔ مجھے تو اب اس بات کا خوف لاحق ہورہا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے میرے مکان کو اپنا اڈا بنا لے گا۔ آدمی بے حد اچھا ہے، یعنی لائق ہے، ذہین ہے پر۔۔۔ کوئی ایسی ترکیب سوچو کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔‘‘
یہ سن کر عبدالمجید کی بیوی نے کہا، ’’تو یہ ترکیب تم ہی سوچو۔۔۔ میں تو صاف گو ہوں، اگر مجھ سے کہو گے تو میں کھلے لفظوں میں اس سے کہہ دوں گی کہ تمہارا یہاں رہنا مجھے بہت ناگوار معلوم ہوتا ہے۔‘‘
عبدالمجید نے اسی وقت تہیہ کرلیا کہ وہ گنڈا سنگھ سے اپنی مشکلات اور مجبوریاں صاف لفظوں میں بیان کردے گا۔ چنانچہ جب شام کو گنڈا سنگھ آیا تو جنگ کے تازہ حالات پر بحث شروع کرنے کے بجائے عبدالمجید نے اس سے کہا، ’’ گنڈا سنگھ میں تم سے ایک بات کہوں۔ برا تو نہیں مانو گے۔‘‘
گنڈا سنگھ نے ہمہ تن گوش ہو کر جواب دیا، ’’برا ماننے کی بات ہی کیا ہے۔ آپ کہیے۔‘‘
اس پر عبدالمجید نے ایک مختصر سی رسمی تمہید شروع کی، پھر اس کے آخر میں کہا، ’’بات یہ ہے کہ سردیوں میں ایک سے زیادہ آدمیوں کی رہائش کا انتظام کیا جاسکتا ہے اس لیے کہ اس موسم میں گنجائش نکل آتی ہے مگر ان گرمیوں میں بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ مردوں کو اتنی نہیں ہوتی جتنی کہ مستورات کو ہوتی ہے ،تم خود سمجھ سکتے ہو۔‘‘
گنڈا سنگھ مطلب سمجھ گیا۔ چنانچہ اس نے پہلی مرتبہ اپنی تکلیفیں بیان کرنا شروع کیں، ’’بھائی عبدالمجید میں تمہاری مہربانیوں کا بہت شکر گزار ہوں۔ رات کاٹنے کے لیے یوں تو مجھے بہت جگہیں مل سکتی ہیں مگر مصیبت یہ ہے کہ ایسی کھلی ہوا کہیں نہیں ملتی۔ سارا دن اس گرم سوٹ میں پگھلتا رہتا ہوں۔ چند راتیں جو میں نے تمہارے یہاں بسر کی ہیں، میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ مجھے تمہاری مجبوریوں اور تکلیفوں کا احساس اب ہوا ہے اس لیے کہ جو آرام مجھے یہاں رات کو ملتا تھا اس قدر خوشگوار تھا کہ میں نے دوسرے پہلو پر کبھی غور ہی نہ کیا۔۔۔ تم میرے دوست ہو ،کوئی ایسی ترکیب نکا لوکہ اس گرم سوٹ سے مجھے نجات مل جائے، اس طور پر کہ یہ گرم سوٹ بھی میرے پاس رہے اور گرمیوں کا موسم بھی کٹ جائے۔ کیونکہ دو تین مہینے کے بعد پھر سردیاں آنے والی ہیں اور مجھے پھر اس سوٹ کی ضرورت ہوگی۔۔۔ سچ پوچھو تو اب میں دیوانگی کی حد تک اس سوٹ کی گرمی سے بیزار ہوگیا ہوں۔۔۔ تم خود سمجھتے ہو!‘‘
عبدالمجید سب سمجھ گیا، گنڈا سنگھ رخصت ہوا تو عبدالمجید نے اپنی بیوی سے بات چیت کی۔ دونوں دیر تک اس مسئلے پر گفتگو کرتے رہے۔ آخر میں اس کی بیوی نے کہا، ’’صرف ایک بات میرے ذہن میں آئی ہے اور وہ یہ ہے کہ گنڈا سنگھ کو کسی ایسی جگہ بھیج دیا جائے جہاں گرمی نہ ہو۔‘‘ یہ سن کر عبدالمجید نے کہا، ’’ٹھیک ہے پر اس کے لیے رقم کی ضرورت ہے، اگر میرے پاس فالتو روپے ہوتے تو کیا میں نے اسے ٹھنڈے کپڑے نہ بنوا دیے ہوتے۔‘‘
اس پر عبدالمجید کی بیوی نے کہا، ’’تم پوری بات تو سن لیا کرو۔ میں نے یہ سوچا ہے کہ اسے شملہ بھیج دیا جائے۔ میرا بھائی نصیر کل آنے والا ہے۔ اس سے کہہ دیں گے وہ گنڈا سنگھ کو بغیر ٹکٹ کے وہاں پہنچا دے گا۔۔۔ ایک دوبار وہ تمہیں بھی تو شملہ لے گیا تھا۔‘‘
عبدالمجید یہ بات سن کر اس قدر خوش ہوا کہ اس نے اپنی بیوی کا منہ چوم لیا، ’’بھئی کیا ترکیب سوچی ہے۔۔۔ یعنی سوٹ گنڈا سنگھ کے جسم پر ہی رہے گا اور وہ شملے پہنچ جائے گا۔۔۔ اس سے بہتر اور کیا چیز ہو سکتی ہے۔‘‘
دوسرے روز شام کو گنڈا سنگھ آیا تو عبدالمجید نے شملہ جانے کی رائے پیش کی۔ یہ سن کر وہ بہت خوش ہوا۔ اس نے قطعاً نہ سوچا کہ شملے جا کر وہ بغیر روپے پیسے کے کس طرح گزارہ کرے گا۔ دراصل ایسی باتوں پر اس نے کبھی غورہی نہیں کیا تھا۔
تیسرے دن نصیر نے گنڈا سنگھ کو گاڑی میں سوار کردیا اور گارڈ سے جو اس کا دوست تھا کہہ دیا تھا کہ وہ اسے بحفاظت تمام شملے پہنچا دے۔
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |