گریباں پھاڑتے ہیں دیکھ خوبان چمن کیوں کر
گریباں پھاڑتے ہیں دیکھ خوبان چمن کیوں کر
نہ کیجے چاک ناصح اس ہوا میں پیرہن کیوں کر
کرے محنت کوئی لذت اٹھاوے یار سے کوئی
کہو اپنے تئیں ضائع نہ کرتا کوہ کن کیوں کر
نہ دو اے گل رخاں تکلیف مجھ کو شعر خوانی کی
کہو بن فصل گل کوئی کرے دیوانہ پن کیوں کر
ہوا جاتا ہوں گز سایہ پہ پڑتی ہے نظر میری
تیری سج دیکھ کر احباب جیتے ہیں سجن کیوں کر
تعجب سخت رہتا ہے یقیںؔ اس بات کا مجھ کو
کہ اتنا بولتے ہیں تلخ یہ شیریں دہن کیوں کر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |