گر اسی طرح سج بنائیے گا

گر اسی طرح سج بنائیے گا
by میر محمدی بیدار

گر اسی طرح سج بنائیے گا
محشر آباد کر دکھائیے گا

عمر وعدوں ہی میں گنوائیے گا
آئیے گا بھی یا نہ آئیے گا

مہرباں قدر جانیے میری
مجھ سا مخلص کہیں نہ پائیے گا

یہی قامت ہے گر یہی رفتار
حشر برپا ہی کر دکھائیے گا

یہی رونا اگر ہے اے انکھیوں
خانۂ مردماں ڈبائیے گا

ماہ رویاں کہاں تلک ہم کو
آتش ہجر میں جلائیے گا

ضبط گریہ نہ ہووے گا جوں شمع
سوز دل گر تمہیں سنایئے گا

حسن جاتا ہے خط کی آمد ہے
ہاں ہمیں کیوں نہ اب منائیے گا

مغتنم جانو ہم سے مخلص کو
ڈھونڈئیے گا تو پھر نہ پائیے گا

یہ نہ ہوگا کہ یاں سے اٹھ جاویں
ایسی سو باتیں گر سنائیے گا

ایک دو کیا ہزار سے بھی ہم
نہیں ڈرتے اگر بلائیے گا

آج جو ہو سو ہو یہی ہے عزم
تم کو ہر طرح لے کے جائیے گا

جس نے بیدارؔ دل لیا میرا
ایک دن تجھ کو بھی دکھایئے گا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse