گر تعلی پر ہے وہم امتحان مے فروش

گر تعلی پر ہے وہم امتحان مے فروش
by منشی خیراتی لال شگفتہ

گر تعلی پر ہے وہم امتحان مے فروش
بے نشاں ہو کر نکالیں گے نشان مے فروش

سجدے کرتے ہیں خم مے کو وفور نشہ میں
صورت مینائے مے مداح شان مے فروش

جام و مینا و صراحی و سبو سے بے گماں
ساقیٔ مشفق پہ ہوتا ہے گمان مے فروش

بھٹیوں پر جا کے پوچھیں گے بہار آنے تو دو
عالم مستی میں مستوں سے بیان مے فروش

شیشہ و جام و صراحی و سبو کیا مال ہیں
بخش دیں گے جوش مستی میں دوکان مے فروش

میکدے میں دخت رز کو لا بٹھائیں گے ضرور
پہلوئے مینائے دل میں میہمان مے فروش

جام آنکھیں ہیں تو بادہ اشک ہے شیشہ ہے دل
دیکھ او مے نوش میں بھی ہوں لبان مے فروش

کس قدر چمکا ہوا ہے بادۂ گلگوں کا دور
ایک عالم آج کل ہے مہمان مے فروش

میں بھی ہوں اک ساقی مے نوش تیرے دور میں
کفش بردار شریک خادمان مے فروش

خم کے خم کر دوں تہی دم بھر میں وہ مے نوش ہوں
اے شگفتہؔ ہاتھ آئے گر دکان مے فروش

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse