گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے

گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے
by مرزا غالب

گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے
خوش ہوں کہ میری بات سمجھنی محال ہے

کس کو سناؤں حسرتِ اظہار کا گلہ
دل فردِ جمع و خرچِ زباں ہائے لال ہے

کس پردے میں ہے آئینہ پرداز اے خدا
رحمت کہ عذر خواہ لبِ بے سوال ہے

ہے ہے خدا نہ خواستہ وہ اور دشمنی
اے شوقِ منفعل! یہ تجھے کیا خیال ہے

مشکیں لباسِ کعبہ علی کے قدم سے جان
نافِ زمین ہے نہ کہ نافِ غزال ہے

وحشت پہ میری عرصۂ آفاق تنگ تھا
دریا زمین کو عرقِ انفعال ہے

ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسدؔ
عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse