گر عدو تقدیر ہے تدبیر رہنے دیجئے
گر عدو تقدیر ہے تدبیر رہنے دیجئے
دوست کا دل میں ہمارے تیر رہنے دیجئے
ہیں جو عاشق کام مزدوروں کا وہ کرتے نہیں
ذمۂ فرہاد جوئے شیر رہنے دیجئے
لیلیٰ و مجنوں کی اک کاغذ پہ ہوتی ہے شبیہ
روبرو اس کے مری تصویر رہنے دیجئے
ہے جنوں فصلی کرو زنجیر تار اشک سے
طور پر میرے مری تدبیر رہنے دیجئے
سیم و زر بنتا ہے خاک کشتۂ دل سے آپ کے
پاس اپنے جان کر اکسیر رہنے دیجئے
آستیں سے ہاتھ باہر ہو نہ اے جان جہاں
بس میاں اندر ہی یہ شمشیر رہنے دیجئے
تیر بے پیکاں نشانہ توڑتا ہے کب وقارؔ
منہ کی منہ میں آہ بے تاثیر رہنے دیجئے
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.
| |