گر عیش سے عشرت میں کٹی رات تو پھر کیا

گر عیش سے عشرت میں کٹی رات تو پھر کیا
by نظیر اکبر آبادی

گر عیش سے عشرت میں کٹی رات تو پھر کیا
اور غم میں بسر ہو گئی اوقات تو پھر کیا

جب آئی اجل پھر کوئی ڈھونڈا بھی نہ پایا
قصوں میں رہے حرف و حکایات تو پھر کیا

حد بوس و کنار اور جو تھا اس کے سوا آہ
گر وہ بھی میسر ہوا ہیہات تو پھر کیا

دو دن اگر ان آنکھوں نے دنیا میں مری جاں
کی ناز و اداؤں کی اشارات تو پھر کیا

پھر اڑ گئی اک آن میں سب حشمت و سب شان
لے شرق سے تا غرب لگا ہات تو پھر کیا

اسپ و شتر و فیل و خر و نوبت و لشکر
گر قبر تلک اپنے چلا سات تو پھر کیا

جب آئی اجل پھر وہیں اٹھ بھاگے شتابی
رندوں میں ہوئے اہل خرابات تو پھر کیا

دو دن کو جو تعویذ و فتیلہ و عمل سے
تسخیر کیا عالم جنات تو پھر کیا

اس عمر دو روزہ میں اگر ہو کے نجومی
سب چھان لیے ارض و سماوات تو پھر کیا

اک دم میں ہوا ہو گئے سب عملی و نظری
تھے یاد جو اسباب و علامات تو پھر کیا

اس نے کوئی دن بیٹھ کے آرام سے کھایا
وہ مانگتا در در پھرا خیرات تو پھر کیا

دولت ہی کا ملنا ہے بڑی چیز نظیرؔ آہ
بالفرض ہوئی اس سے ملاقات تو پھر کیا

آخر کو جو دیکھا تو ہوئے خاک کی ڈھیری
دو دن کی ہوئی کشف و کرامات تو پھر کیا

جب آئی اجل ایک ریاضت نہ گئی پیش
مر مر کے جو کی کوشش و طاعات تو پھر کیا

جب آئی اجل آہ تو اک دم میں گئے مر
گر یہ بھی ہوئی ہم میں کرامات تو پھر کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse