گر پڑے دانت ہوئے موئے سر اے یار سفید
گر پڑے دانت ہوئے موئے سر اے یار سفید
کیوں نہ ہو خوف اجل سے یہ سیہ کار سفید
دو قدم فرط نزاکت سے نہیں چل سکتا
رنگ ہو جاتا ہے اس کا دم رفتار سفید
اس مسیحا کی جو آنکھیں ہوئیں گلزار میں سرخ
ہو گئی خوف سے بس نرگس بیمار سفید
گل نسریں کو نہیں جوش چمن میں بلبل
ہے نزاکت کے سبب چہرۂ گلزار سفید
گھر مرے شب کو جو وہ رشک قمر آ نکلا
ہو گئے پرتو رخ سے در و دیوار سفید
لب و دنداں کے تصور میں جو رویا میں کبھی
اشک دو چار بہے سرخ تو دو چار سفید
ہوئی سرسبز جو صحبت میں امانتؔ کی غزل
رنگ دشمن کا ہوا رشک سے اک بار سفید
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |