گر کہیں اس کو جلوہ گر دیکھا

گر کہیں اس کو جلوہ گر دیکھا
by میر محمدی بیدار

گر کہیں اس کو جلوہ گر دیکھا
نہ گیا ہم سے آنکھ بھر دیکھا

نالہ ہر چند ہم نے گر دیکھا
آہ اب تک نہ کچھ اثر دیکھا

آج کیا جی میں آ گیا تیرے
متبسم ہو جو ادھر دیکھا

آئینہ کو تو منہ دکھاتے ہو
کیا ہوا ہم نے بھی اگر دیکھا

دل ربا اور بھی ہیں پر ظالم
کوئی تجھ سا نہ مفت پر دیکھا

اور بھی سنگ دل ہوا وہ شوخ
تیرا اے آہ بس اثر دیکھا

منت و عاجزی و زاری و آہ
تیرے آگے ہزار کر دیکھا

تو بھی تو نے نہ اے مہ بے مہر
نظر رحم سے ادھر دیکھا

سچ ہے بیدارؔ وہ ہے آفت جان
ہم نے بھی قصہ مختصر دیکھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse