گزرے وعدے کو وہ خود یاد دلا دیتے ہیں

گزرے وعدے کو وہ خود یاد دلا دیتے ہیں
by عاشق اکبرآبادی

گزرے وعدے کو وہ خود یاد دلا دیتے ہیں
دل کی سوئی ہوئی حسرت کو جگا دیتے ہیں

نو گرفتار قفس ہیں نہیں کرتے فریاد
جان کو تیری یہ صیاد دعا دیتے ہیں

طالب جلوۂ دیدار سمجھ کر مجھ کو
اک جھلک سی رخ روشن کی دکھا دیتے ہیں

ذبح کرتے ہیں تڑپنے نہیں دیتے مجھ کو
تہہ زانو مری گردن کو دبا دیتے ہیں

اپنے موقع پہ ہر اک بات بھلی ہوتی ہے
شب فرقت میں یہ صدمے بھی مزا دیتے ہیں

غیر کے کہنے سے در گور کہا کرتے ہیں
جیتے جی وہ مجھے پیغام قضا دیتے ہیں

میں وہ قیدی ہوں کہ سونے نہیں دیتے مجھ کو
آنکھ لگتی ہے تو زنجیر ہلا دیتے ہیں

لے لیا بوسۂ رخسار تو کیا جرم کیا
پیار کی بات پہ ناحق وہ سزا دیتے ہیں

شمع محفل ہوں نہ عاشق نہ میں بوئے گل ہوں
مہ جبیں کیوں مجھے آنچل کی ہوا دیتے ہیں

ان کے قبضہ میں ہے کونین کی شاہی عاشقؔ
شاہ وہ دے نہیں سکتے جو گدا دیتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse