گلزار وطن
پھولوں کا کنج دل کش بھارت میں اک بنائیں
حب وطن کے پودے اس میں نئے لگائیں
پھولوں میں جس چمن کے ہو بوئے جاں نثاری
حب وطن کی قلمیں ہم اس چمن سے لائیں
خون جگر سے سینچیں ہر نخل آرزو کو
اشکوں سے بیل بوٹوں کی آبرو بڑھائیں
ایک ایک گل میں پھونکیں روح شمیم وحدت
اک اک کلی کو دل کے دامن سے دیں ہوائیں
فردوس کا نمونہ اپنا ہو کنج دل کش
سارے جہاں کی جس میں ہوں جلوہ گر فضائیں
چھایا ہو ابر رحمت کاشانۂ چمن میں
رم جھم برس رہی ہوں چاروں طرف گھٹائیں
مرغان باغ بن کر اڑتے پھریں ہوا میں
نغمے ہوں روح افزا اور دل ربا صدائیں
حب وطن کے لب پر ہوں جاں فزا ترانے
شاخوں پہ گیت گائیں پھولوں پہ چہچہائیں
چھائی ہوئی گھٹا ہو موسم طرب فزا ہو
جھونکے چلیں ہوا کے اشجار لہلہائیں
اس کنج دل نشیں میں قبضہ نہ ہو خزاں کا
جو ہو گلوں کا تختہ تختہ ہو اک جناں کا
بلبل کو ہو چمن میں صیاد کا نہ کھٹکا
خوش خوش ہو شاخ گل پر غم ہو نہ آشیاں کا
حب وطن کا مل کر سب ایک راگ گائیں
لہجہ جدا ہو گرچہ مرغان نغمہ خواں کا
ایک ایک لفظ میں ہو تاثیر بوئے الفت
انداز دل نشیں ہو ایک ایک داستاں کا
مرغان باغ کا ہو اس شاخ پر نشیمن
پہنچے نہ ہاتھ جس تک صیاد آسماں کا
موسم ہو جوش گل کا اور دن بہار کے ہوں
عالم عجیب دل کش ہو اپنے گلستاں کا
مل مل کے ہم ترانے حب وطن کے گائیں
بلبل ہیں جس چمن کے گیت اس چمن کے گائیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |