گلوں کے پردے میں شکلیں ہیں مہ جبینوں کی

گلوں کے پردے میں شکلیں ہیں مہ جبینوں کی
by ریاض خیرآبادی

گلوں کے پردے میں شکلیں ہیں مہ جبینوں کی
یہ ڈالیاں ہیں کہ ہیں ڈولیاں حسینوں کی

یہ آستینیں نہیں ہیں چنی ہوئی ظالم
بلائیں لی ہیں نگاہوں سے آستینوں کی

کسی کے جلوے سر عرش چھپ نہیں سکتے
کہ دور رسن ہیں نگاہیں بلند بینوں کی

پس فنا بھی نہ خالی رہیں یہ قصر رفیع
نہ ہوں مکین تو قبریں رہیں مکینوں کی

کس انتہا کی نزاکت ہے میرے شعروں میں
نظر لگے نہ کہیں ان کو نکتہ چینوں کی

جو نیند آئے تو یوں آئے موت آئے تو یوں
ہمارے سامنے شکلیں ہوں مہ جبینوں کی

ہم اپنے ملک سخن کو وسیع کرتے ہیں
ہمیں تلاش ہے ہر دم نئی زمینوں کی

انہیں غرض مری باتیں کھڑے کھڑے سن لیں
سنیں گے بیٹھ کے وہ اپنے ہم نشینوں کی

کہاں وہ چاندنی راتیں وہ چاند کے ٹکڑے
نہ اب وہ ہم ہیں نہ شکلیں ہیں مہ جبینوں کی

اترتے ہیں نئے مضموں جو آسماں سے ریاضؔ
تلاش رہتی ہے ہم کو نئی زمینوں کی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse