گلی اکیلی ہے پیارے اندھیری راتیں ہیں
گلی اکیلی ہے پیارے اندھیری راتیں ہیں
اگر ملو تو سجن سو طرح کی گھاتیں ہیں
بتاں سیں مجھ کوں تو کرتا ہے منع اے زاہد
رہا ہوں سن کہ یہ بھی خدا کی باتیں ہیں
ازل سیں کیوں یہ ابد کی طرف کوں دوڑیں ہیں
وہ زلف دل کے طلب کی مگر براتیں ہیں
رقیب عجز سیں معقول ہو سکے ہیں کہیں
علاج ان کا مگر جھگڑیں ہیں و لاتیں ہیں
کرو کرم کی نگاہاں طرف فقیروں کی
نصاب حسن کی صاحب یہی زکاتیں ہیں
رہیں فلک کے سدا ہیر پھیر میں نامرد
یہ رنڈیاں ہیں کہ چرخا ہمیشہ کاتیں ہیں
لکھوں گا آبروؔ اب خوش نین کوں میں ناما
پلک قلم ہیں مری مردمک دواتیں ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |