گل رہے نہیں نام کو سرکش ہیں خاراں العیاذ
گل رہے نہیں نام کو سرکش ہیں خاراں العیاذ
کھٹکے ہے آنکھوں میں یہ سونا گلستاں العیاذ
خاک سر پر کر بگولے سے غم مجنوں میں ہائے
پھاڑتا ہے دامن صحرا گریباں العیاذ
بسکہ ہر کانٹے سے دل چھید ایک بلبل مر رہے
ہو گیا گلشن خزاں میں بلبلستاں العیاذ
ڈالتے ہیں اہل دنیا خیمے اب صحرا کے بیچ
فوت مجنوں سے ہے بے وارث بیاباں العیاذ
نکلے ہے جیب جنون صبح سے جوں آفتاب
داغ ہے چاکوں سے عزلت کا گریباں العیاذ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |