گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی

گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
by مرزا محمد رفیع سودا

گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی

کیا ضد ہے مرے ساتھ خدا جانے وگرنہ
کافی ہے تسلی کو مری ایک نظر بھی

اے ابر قسم ہے تجھے رونے کی ہمارے
تجھ چشم سے ٹپکا ہے کبھو لخت جگر بھی

اے نالہ صد افسوس جواں مرنے پہ تیرے
پایا نہ تنک دیکھنے تیں روئے اثر بھی

کس ہستئ موہوم پہ نازاں ہے تو اے یار
کچھ اپنے شب و روز کی ہے تج کو خبر بھی

تنہا ترے ماتم میں نہیں شام سیہ پوش
رہتا ہے سدا چاک گریبان سحر بھی

سوداؔ تری فریاد سے آنکھوں میں کٹی رات
آئی ہے سحر ہونے کو ٹک تو کہیں مر بھی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse