گل ہے زخمی بہار کے ہاتھوں

گل ہے زخمی بہار کے ہاتھوں
by میر حسن دہلوی

گل ہے زخمی بہار کے ہاتھوں
دل ہے صد چاک یار کے ہاتھوں

دم بدم قطع ہوتی جاتی ہے
عمر لیل و نہار کے ہاتھوں

جاں بلب ہو رہا ہوں مثل حباب
میں ترے انتظار کے ہاتھوں

ایک دم بھی ملا نہ ہم کو قرار
اس دل بے قرار کے ہاتھوں

اپنی سرگشتگی کبھی نہ گئی
گردش روزگار کے ہاتھوں

اک شگوفہ اٹھے ہے روز نیا
اس دل داغدار کے ہاتھوں

دل پہ کیا کیا ہوے ہیں نقش و نگار
ناوک دل فگار کے ہاتھوں

ہو رہا ہے خراب خانۂ دل
دیدۂ اشک بار کے ہاتھوں

گر کبھی لگ گیا ترا دامن
میری مشت غبار کے ہاتھوں

چھوٹنا ہے پھر اس کا امر محال
اس ترے خاکسار کے ہاتھوں

اک دل خار خار ہوں میں حسنؔ
اپنے اس گلعذار کے ہاتھوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse