گناہ کی بیٹیاں، گناہ کے باپ

گناہ کی بیٹیاں، گناہ کے باپ (1954)
by سعادت حسن منٹو
319925گناہ کی بیٹیاں، گناہ کے باپ1954سعادت حسن منٹو

برس یا ڈیڑھ برس پیچھے کی بات ہے۔ کراچی سے یہ اطلاع موصول ہوئی تھی کہ وہاں عورتوں کی جسم فروشی قانوناً ممنوع قرار دے دی گئی ہے۔ اس پر مختلف اخباروں نے الحاج خواجہ شہاب الدین صاحب کے مجلاو مطہر جذبے کی بہت تعریف و توصیف کی تھی۔ میں نے اس وقت بھی سوچا تھا اور آج بھی سوچتا ہوں کہ وہ چیز جسے ممنوع کیا گیا ہے اس کی تعریف قانونی نقطۂ نظر سے کیا کی گئی ہو گی، اتنا سنا تھا کہ گزور ؔ صاحب نے، ’’پروسٹی چیوٹ‘‘ یعنی قحبہ کی تعریف ان لفظوں میں کی تھی۔ وہ عورت جو روپے کے عوض بازار میں اپنی عصمت فروخت کرے۔

میں اس تعریف کا مضحکہ اڑانا نہیں چاہتا۔ حالانکہ یہ بات کچھ عجیب سی معلوم ہوتی ہے کہ عصمت بار بار کیسے فروخت کی جا سکتی ہے۔ یہ تو ویسے ہی ہوا، اگر کہا جائے کہ میں تلوار تو نہیں بیچتا، پر اس کی آب آپ جب چاہیں مقررہ دام دے کر حاصل کر سکتے ہیں۔ عصمت جہاں تک میں سمجھتا ہوں، ایک ایسی آب ہے جو ایک ہی دفعہ فروخت کرنے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے معدوم ہو جاتی ہے اور وہ بھی صرف اس وقت اگر ہم اسے ٹھٹھ قسم کی گھریلو عورت کی پاکیزگی کردار سے تعبیر کریں۔ ورنہ یہ ایک اضافی صفت ہے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ کسبیوں کے ہاں وہ عورت باعصمت متصور کی جاتی ہو، جو اپنے کاروباری اصول کی پکی ہو۔ جو اپنا جسم مفت نذر نہ کرتی ہو۔ لیکن میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ بہت سی ایسی باتیں نکل آنے کا اندیشہ ہے جو نیم رس اذہان کو اشتعال دلانے کا باعث ہو سکتی ہیں۔

ہم اگر گزور صاحب کی تعریف کو پیش نظر رکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ عورت امتناعی قانون کی زد میں نہیں آئے گی جو اپنا جسم نہ بیچتی ہو۔ وہ اپنی ادائیں بیچ سکتی ہے، ناز نخرے، عشوے اور غمزے فروخت کر سکتی ہے، مگر اس کو اپنے جسم کا خاص حصہ بیچنے کی ممانعت ہے۔ دنیا میں ایسا کون سا شعبہ ہے جہاں لین دین نہیں ہوتا، لیکن یہ پھر ایک ایسا مبحث ہے کہ سیکڑوں تلخ اور ترش باتیں پیدا ہو جائیں گی جن سے میں فی الحال دور ہی رہنا چاہتا ہوں۔ ایک بڑا گستاخ سا سوال اور بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ امتناعی قانون صرف عورتوں ہی کے لئے کیوں مخصوص ہے۔ مرد اس سے کیوں مستثنیٰ ہیں۔ کیا صنف مخالف میں ایسے افراد موجود نہیں جو انہیں معنوں میں اپنا جسم بیچتے ہیں جن معنوں میں یہ عورتیں، جن پر پابندی عائد کی گئی ہے۔۔۔ اس سوال پر، میرا خیال ہے کہ آپ میری مدد کے بغیر ہی غور کیجئے۔

گزور صاحب کی متذکرہ صدر تعریف اور امتناعی قانون کا جو رد عمل ہونا تھا وہ ظاہر تھا۔ کراچی میں چنانچہ یہ ہوا کہ متعدد کسبیوں نے رقاصاؤں کا روپ دھار لیا۔ جو پہلے مجرے نہیں کرتی تھیں، انہوں نے طبلے اور ہارمونیم منگوا لئے جو ڈھال کا کام دینے لگے، اب وہ قانون کی زد سے باہر تھیں۔ کیونکہ وہ ان سازوں کی گواہی پیش کر سکتی تھیں کہ ان کا پیشہ تو صرف گانا بجانا ہے جو ممنوع نہیں ہے۔ کراچی میں اس چولا بدلی سے جو دلچسپ باتیں ظہور پذیر ہوئیں ان میں سے چند یہ ہیں، بہت سی کسبیاں تو شہر چھوڑ کر ایسے مقامات پر چلی گئیں جہاں اس قانون کا ہاتھ نہیں پہنچتا تھا۔ بعض شریف محلوں میں اقامت پذیر ہو گئیں کہ پولیس کے چھاپوں سے محفوظ رہیں، بعض جو ثابت قدم تھیں اپنے اپنے اڈے پر جمی رہیں۔ ان کے سرخ لالٹین والے بازار میں پولیس راؤنڈ لگاتی رہتی اور اوپر کوٹھوں میں بظاہر مجرے ہو رہے ہیں، لیکن اندرونی طور پر ان کا کاروبار باقاعدہ چل رہا ہے۔

سنا ہے کہ ان کے گاہکوں کو بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ کسی کوٹھے کا رخ کر رہے ہیں کہ پولیس کے سپاہی نے پوچھ گچھ شروع کر دی۔ اس کی نیت پر جائز یا ناجائز شبہ کیا جا رہا ہے کہ نہیں، تم گانا سننے نہیں کسی اور غرض سے جا رہے ہو، اب وہ غریب اگراسی غرض سے جا رہا تھا، جس کی طرف پولیس کے سپاہی نے اشارہ کیا تھا تو وہ اسے قبولے کیسے اور اگر وہ واقعی گانا سننے ہی کے لئے آیا تھا تو وہ اس کا یقین کیونکر دلائے۔ جو کچھ میں اب کہنے والا ہوں، از برائے خدا اس کا مطلب نکالنے کی کوشش نہ کیجئے گا۔ مسجدوں میں جوتیاں عام چرائی جاتی ہیں، اگر اس کے احتساب کے لئے پولیس پوچھ گچھ شروع کر دے تو ذرا سوچئے نمازیوں کو کتنی پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔ جوتی چور کب مانے گا کہ وہ خدا کو یاد کرنے نہیں، اس کے بندوں کی جوتیاں چرانے آیا ہے اور خدا کو پوری نیک نیتی سے یاد کرنے والے کیونکر یقین دلائیں گے کہ وہ جوتی چور نہیں ہیں۔

ایک ہی صورت ہو سکتی ہے کہ پولیس والے سے کہا جائے۔۔۔ کہ بھائی زیادہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں۔ تم ساتھ ہی آ جاؤ اور دیکھتے رہو کہ میں گانا سنتا ہوں، یا کچھ اور کرتا ہوں مگر ایسی تفریح میں محتسب کی موجودگی۔۔۔؟ اس کی کڑی نگرانی۔۔۔؟ آدمی کیا خاک لطف اٹھائے گا اور یہ تو ظاہر ہے کہ جو بھی وہاں جائے گا اپنے داموں کے عوض چند گھڑیوں کا لطف ضرور چاہے گا۔ میں نے سنا ہے کئی بار کراچی میں ایسا ہوا کہ طوائف مجرا کر رہی ہے۔ گاہک گاؤ تکیےکا سہارا لیئے بیٹھا ہے اور اس کے پاس ہی پولیس کا سپاہی طوائف اور اس کے گاہک کی ہر حرکت ناپ تول رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ سارا تماشہ مفت دیکھ رہا ہے۔

بعض رنڈیوں کو یہ ترکیب سوجھی کہ گاہک کو اپنا نزدیک یا دور کا رشتہ دار بنا لیا اور محتسب سے یہ کہہ دیا کہ وہ فلاں فلاں شہر سے آیا ہے اور دو تین روز ہمارے پاس رہے گا۔۔۔ یہ قانون شکنی ہے، مگر دنیا کا وہ کون سا قانون ہے جس کی شکنی نہیں ہوئی۔ ایک عام کہاوت ہے کہ قانون بنایا ہی اس لئے جاتا ہے کہ توڑا جائے، لیکن یہ قانون کیسا ہے جو کراچی میں رائج العمل ہے لیکن اس کی حدود سے باہر جس کا کچھ مطلب ہی نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ حکومت نے اپنے اس ایک بٹا آٹھ قسم کے اقدار میں کچھ مصلحت دیکھی ہو لیکن سچ پوچھئے تو مجھے تو ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی جسے مصلحت کہا جا سکتا ہے۔ ایک بازار کا کوڑا کرکٹ نکال کر سارے شہر میں پھیلا دینا یا اسے اٹھا کر اس کی حدود سے باہر ڈھیر کر دینا کہ وہ ہو اسے یا کسی اور ذریعے سے جہاں چاہے چلا جائے کہاں کی مصلحت ہے؟

پھر یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ اس قسم کی صفائی، پاکیزگی اور طہارت صرف ایک ہی شہر کے لئے کیوں مخصوص کی گئی۔ کسی جگہ کوئی متعدی مرض نمودار ہو تو اس میں باہر سے آنے والوں اور اندر سے باہر جانے والوں پر کڑی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں تاکہ اس کی روک تھام بطریق احسن ہو سکے لیکن حفاظتی تدابیر اگر یوں اختیار کی جائے کہ مرض کے شکاروں کو چن چن کر شہر بدر کر دیا جائے تو بتایئے اس کا کیا مطلب ہوگا؟ قانون بنانے والے جاہل نہیں ہو سکتے، لیکن سمجھ میں نہیں آتا قوانین میں اکثر مضحکہ خیز خامیاں کیوں رہ جاتی ہیں۔۔۔ یہاں لاہور میں گداگری قانوناً ممنوع قرار دی گئی ہے، لیکن پیشہ ور بھک منگوں نے کشکول کے بجائے دو ماچس، تین لیموں یا چار اخبار پاس رکھ لئے اور خود کو محفوظ کر لیا۔ ان بازاوں کو چھوڑ دیا جہاں نظر احتساب پڑتی تھی۔ یا شہر چھوڑ کر دوسری جگہ چلے گئے۔

کوئی بیماری دور کرنا ہو تو عام طور پر اس کی جڑ پکڑی جاتی ہے۔ وہ بنیادی نقائص دور کئے جاتے ہیں جو مرض کا اصل باعث ہوتے ہیں۔ جسم پر کوئی پھوڑا ہو تو فاسد مادہ خارج کرنے کے لئے اسے چیرا پھاڑا جاتا ہے۔ انسانی جسم کے عارضے اور انسانی معاشرت کے عارضے میں جہاں تک میں سمجھتا ہوں کوئی فرق نہیں، اس کا علاج بھی اسی طرح ہونا چا ہیئے جس طرح کہ انسانی جسم کا کیا جاتا ہے۔ ایک شہر میں گداگری ممنوع قرار دی جاتی ہے۔ دوسرے میں کسبی عورتوں کا کاروبار، ایک صوبے میں شراب نوشی پر پابندیاں عائد ہیں دوسرے میں کھلے بندوں اس کی اجازت ہے۔ یہ کیسے قانون ہیں اور کیسی معاشرت ہے؟

یہ راز کس سے چھپا ہے کہ ہمارے صوبے میں جہاں شراب پینے کی ممانعت ہے ہزاروں آدمیوں نے ڈاکٹروں کی ’’فیسیں‘‘ ادا کرکے سرٹیفیکٹ حاصل کر رکھے ہیں اور یوں قانونی زد سے محفوظ بڑے آرام اور اطمینان سے ہر روز اپنا شوق پورا کرتے ہیں اور یہ بھی کسے معلوم نہیں کہ سیکڑوں پرمٹ یافتہ شراب فروشی کا باقاعدہ کاروبار کر رہے ہیں۔ گداگری قانوناً بند کر دی جاتی ہے، مگر وہ اسباب و علل دور کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی جو انسان کو اس فعل پر مجبور کرتے ہیں۔ عورتوں کو سر بازار جسم فروشی کے کاروبار سے روکا جاتا ہے مگر اس کے محرکات کے استیصال کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔

شراب نوشی، گداگری اور عرف عام میں عصمت فروشی کوئی خلاف عقل یا خلاف فطرت فعل نہیں۔ ہبوط آدم سے لے کر اب تک یہ افعال ہمارے ساتھ چلے آ رہے ہیں۔ ان کا مکمل انسداد گزشتہ انسانی تاریخ کے کسی دور میں بھی نہیں ہوا اور نہ کسی آئندہ دور میں ہوگا۔ ہم انسان کی فطری کمزوریاں دبا سکتے ہیں، ان کو کسی حد تک روک سکتے ہیں، مگر ان کا قطعی انسداد نہیں کر سکتے۔

جس طرح انسان کے جسم میں بیماری کے جراثیم علاج کی مدافعت کرتے ہیں، اسی طرح معاشرے میں انسان کے عیوب بھی اپنی زندگی کے لئے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں اور پوری قوت سے ان حملوں کا مقابلہ کرتے ہیں جو ان کے خلاف کئے جاتے ہیں۔ سانپ بڑا موذی جانور ہے لیکن جب اس کی جان پر حملہ ہوتا ہے تو وہ اسے بچانے کیلئے ضرور کوشش کرتا ہے۔ ہم اس کوشش کو قابل مواخذہ قرار نہیں دے سکتے۔ پچھلے دنوں موگے سے ایک اطلاع آئی تھی کہ وہاں کے دس نمبریوں نے ایک انجمن بنائی ہے تاکہ وہ ان کے حقوق کی حفاظت کرے، بظاہر یہ بڑی عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے، لیکن اکثریتوں اور اقلیتوں کی صف آرائیوں کے اس زمانے میں ہمیں اس انجمن کے قیام پر متعجب نہیں ہونا چاہیئے۔ ہر برائی کے بھی چند اچھے پہلو ہوتے ہیں اور معاشرے میں جب اچھے اور برے پہلو بہ پہلو موجود ہیں تو اچھوں کے مقابلے میں بروں کے بھی حقوق چاہئیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو ان کی حفاظت کےلئے انجمن قائم کرنے کی سوجھی۔

آج سے چالیس پچاس برس پیچھے اگر بھنگی اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے تو یقیناً لوگ ان کو دیوانہ یقین کرتے، مگر اب ان کے حقوق کی حقیقت سب پر واضح ہو چکی ہے۔ اسی طرح دور زمانہ کے ساتھ ممکن ہے دس نمبریوں کے حقوق بھی ایک دن تسلیم کرلئے جائیں۔ پچھلے دنوں جب کراچی میں، عصمت فروشی کے انسداد کے لئے قانون نافذ ہوا تھا اور یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ طوائفوں اور کسبیوں کا ایک وفد حکومت کے ذمہ دار ارکان کے پاس اپنی شکایات لے کر پہنچا تھا اور اس نے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا تھا۔ غالباً اسے ٹال دیا گیا تھا، لیکن میں سمجھتا ہوں اگر وفد سے بالمشافہ گفتگو کی جاتی اور مسئلے کے تمام عواقب و عواطف پر اچھی طرح غور کیا جاتا تو اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ضرور نکل آتا۔ غور کرتے وقت یہ حقیقت ضرور پیش نظر رکھی جاتی کہ گناہ کی ان کھیتیوں میں تخم ریزی کرنے والے ہم خود ہی ہیں۔ یہ طبقہ جسے ہم ملعون و مطعون قرار دینا چاہتے ہیں خود رو نہیں۔ ہم اس کے بیج بوتے ہیں، خود ہی ان کو پانی دیتے ہیں، لیکن جب یہ نشوونما پا جاتے ہیں تو پھر اس کی کاشت سے گھبراتے ہیں۔

یہ حقیقت بھی کسی سے مخفی نہیں کہ ان محلوں میں جس پر گناہ کے فعل کا بورڈ آویزاں کیا جاتا ہے ہمیں معاشرے کی بڑی بڑی بزرگ شخصیتوں کے نطفے نظر آ سکتے ہیں۔ میں ان کی ذات پر کوئی حملہ کرنا نہیں چاہتا۔ بڑے سے بڑا انسان بھی نفسیاتی خواہشات کا شکار ہو سکتا ہے اور وہ شغل جو وہ ایک لمحاتی جذبے کے تحت اختیار کرتا ہے، اس کے دور رس نتائج کے بارے میں اس کو اس وقت کچھ علم نہیں ہوتا۔ کسی جگہ کھڑے ہو کر پیشاب کر دینا بالکل دوسری چیز ہے۔ اسے آپ پرلے درجے کی بدتمیزی کہہ لیں گے لیکن کسی رنڈی کے کوٹھے پر دام دے کر چند لمحات کے لئے اسے اپنی خواہشات پوری کرنے کے لئے خرید لینا بظاہر ایک معمولی سا سودا ہے، لیکن اس کے نتائج بہت اہم بھی ہو سکتے ہیں۔ آپ کو کیا معلوم ہے کہ آپ کا پھینکا ہوا فضلہ اس گھوری میں آپ کے خون کی نخل بندی کر رہا ہے یا نہیں۔ ہم اسے بدتمیزی کہہ کر نہیں ٹال سکتے۔ اس کی تمام تر ذمہ داری ہمارے سر ہوگی۔

زمین کسی کی بھی ہو، کیسی بھی ہو، مگر بیج تو آپ ہی کا ہوگا۔ زمین کا پٹہ آپ کے پاس نہیں تھا۔ یہ بھی کوئی عذر نہیں۔ اسی طرح آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ فلاں رنڈی جس کے بطن سے آپ کے خون کا قطرہ لڑکی یا لڑکا بن کر پیدا ہوا ہے، آپ کی اولاد نہیں، اس کی تخلیق و تولید کی ذمہ داری یکسر آپ کی ہے۔ آپ اس کے وجود سے انحراف نہیں کر سکتے۔

گورنمنٹ نام نہاد عصمت فروشی کے انسداد کی تدبیریں سوچتی ہے۔ اندھا دھند وہ اس عمارت کو ڈھانے کے لئے ہتھوڑے چلاتی ہے۔ جس کی بنیادوں کو معاشرے کے بڑے بڑے اونچے ستونوں نے سیسہ پلایا ہے۔ اس عمارت میں، اگر بنظر غور دیکھا جائے تو ہمیں بڑی بڑی تقدس مآب ہستیوں کے ماتھے کی محرابیں مل جائیں گی اور گناہ کی ان بیٹیوں کی شکل و صورت میں کئی جانے پہچانے ناک نقشے ابھر آئیں گے۔ کیوں نہ مردم شماری کی طرح ان منڈیوں میں جہاں گناہ کی خرید و فروخت ہوتی ہے دیگر اجناس کی طرح باقاعدہ حساب کتاب رکھا جائے، کیوں نہ ایک رجسٹر میں ان لوگوں کا نام درج ہو جو وہاں محض عیاشی کے لئے جاتے ہیں، جو بیویوں کے ہوتے ہوئے اور صاحب اولاد ہونے کے باوصف ان کسبیوں کو اپنی عورتیں بناتے ہیں اور بچے پیدا کرتے ہیں، پھر ان بچوں کو انہی سے کیوں نہ موسوم کیا جائے تاکہ سب کو معلوم ہو کہ قحبہ خانوں میں کون سی رنڈی کس کی بیٹی ہے۔

نکاح کے کاغذ کو، ایجاب و قبول کو، سہرے جلوؤں کو، چھوہاروں کو، باجے گاجے کو، حق مہر کو، نان و نفقے کو، ان سب کو فی الحال برطرف رکھیئے اور سوچئے کہ رنڈی کی کوکھ میں اگر کسی نام نہاد شریف و نجیب کا نطفہ ٹھہرتا ہے تو اس میں اس نطفے کا کیا قصور۔۔۔ اگر اسے مقررہ میعاد کے بعد لڑکے یا لڑکی میں تبدیل ہو کر کوکھ سے باہر آنا ہے، تو ظاہر ہے کہ اس تذکیر و تانیث میں بھی اس کا کوئی دوش نہیں اور رنڈی کی گود میں جو یقیناً ماں ہی کی گود ہوگی، یہ لڑکی یا لڑکا کس قسم کی پرورش اور تعلیم پائے گا، وہ ظاہر ہے۔ ایسے سیکڑوں لڑکے لڑکیاں جن کے باپ بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں اور معاشرے میں بڑے احترام کی نظروں سے دیکھے جاتے ہیں، گناہ کی ان منڈیوں میں موجود ہیں، اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے؟ مگر سوال ہے کہ ان کے خالقوں کے لئے حکومت نے کیا قانون وضع کیا ہے؟

بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا، مگر یہ امر واقع ہے کہ ہیرا منڈی میں۔۔۔ لاہور کی سب سے بڑی قحبوں کی بستی میں ایک ایسی ناچنے گانے والی موجود ہے جس کا باپ کسی زمانے میں امرتسر کے جلیانوالہ باغ کا ایک ہیرو تھا۔ ایک اور کسبی موجود ہے۔ جس کا باپ ایک بہت اہم عہدے پر فائز ہے اور کراچی میں ایک مشہور و معروف اور تاریخی ہستی ایسی بھی ہے جس کی ایک نہیں مختلف طوائفوں کے بطن سے کئی لڑکیاں ایک زمانے سے داد عیش دے رہی ہیں اور غالباً اس کو اس بات کا ناز ہے کہ اس نے ارباب نشاط کو اتنے قابل قدر تحفے عنایت کئے ہیں۔

حال ہی میں راولپنڈی سے جہاں قائد ملت خان لیاقت علی خان کو قتل کیا گیا تھا، یہ خبر آئی تھی کہ وہاں کی طوائفیں مل کر ایک ٹریڈ یونین قائم کر رہی ہیں۔ ہو سکتا ہے بعض اصحاب یہ خبر سن کر ہنس دیے ہوں یا زیرلب مسکرا دیے ہوں، مگر میں اس خبر کو بہت اہمیت دیتا ہوں۔ کیونکہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ طبقہ معاشی اور سیاسی طور پر بیدار ہو رہا ہے اور بیداری خواہ وہ طوائف کی ہو یا کسی گھریلو عورت کی۔ شرابی کی ہو یا صوفی کی، حاکم کی ہو یا محکوم کی، میرے نزدیک ایک نیک فال ہے۔ راولپنڈی کی طوائفیں کم از کم اپنا نقطۂ نظر تو پیش کریں گی جو خالصتاً ان کا اپنا نقطۂ نظر ہوگا اور جو خود انہی کے دماغ سے اور انہی کے منہ سے نکلے گا۔

مجھے نام نہاد کمیونسٹوں سے بڑی چڑ تھی۔ وہ لوگ مجھے بہت کھلتے تھے جو نرم نرم صوفوں پر بیٹھ کر درانتی اور ہتھوڑے کی ضربوں کی باتیں کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ چاندی کی لٹیا سے دودھ پینے والا کامریڈ سجاد ظہیر میری نظروں میں ہمیشہ ایک مسخرا رہا۔ محنت کش مزدوروں کی صحیح نفسیات کچھ ان کا اپنا پسینہ ہی بطریق احسن بیان کر سکتا ہے۔ اس کو دولت کے طور پر استعمال کر کے اس کے پسینے کی روشنائی میں قلم ڈبو ڈبو کر گرانڈیل لفظوں میں منشور لکھنے والے، ہو سکتا ہے بڑے مخلص آدمی ہوں، مگر معاف کیجئے میں اب بھی انہیں بہروپئے سمجھتا ہوں۔

کسی مرض کا حتمی علاج کرنے کے لئے اس کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ معالج کو ایک بہت بڑی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ مرض خود نہیں بولتا۔ صرف اس کی خارجی علامات سے اس کو اپنی تشخیص مرتب کرنا پڑتی ہے، مگر یہاں مرض خود بولنا چاہتا ہے۔ رنڈیاں خود اپنا احوال بتانا چاہتی ہیں۔ کیوں نہ اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ میں تو سمجھتا ہوں حکومت کو ان کی ٹریڈ یونین کے قیام پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیئے۔ اس لئے کہ معاشرے میں ان کا وجود مسلم ہے۔ ان کو اپنے طبقے کی نمائندگی کا موقع دینا چا ہیئے تاکہ وہ جن کے سپرد ان کی بیخ کنی ہے، خود ان ہی کے بتائے ہوئے ذرائع پر عمل کریں۔

لاہور سے پچھلے دنوں چند مشہور طوائفوں نے ایک ہفتہ وار پرچہ ’’رقص و سرود‘‘ جاری کیا تھا۔ اس کے چند شمارے میں نے دیکھے تھے۔ مجھے اس کے اجرا پر بہت خوشی ہوئی تھی، لیکن میں نے دیکھا کہ اس کے صفحات پر اکثر و بیشتر انہیں لوگوں کے رشحات قلم تھے جو ان طوائفوں کے گاہکوں کی فہرست میں آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ پرچہ جس سے بڑی امیدیں وابستہ کی جا سکتی تھیں صالح خون کی کمی کے باعث مر گیا۔

عام گاہک دکاندار کی نفسیات نہیں جان سکتے، لیکن اچھا دکاندار ہر قسم کے گاہک کی نفسیات بخوبی سمجھتا ہے، اس لئے کہ اسے بطور خاص اس کی تعلیم دی گئی ہوتی ہے۔ سودا کس طرح خریدنا ہے، کس موقع پر خریدنا ہے، کہاں سے خریدنا ہے۔۔۔ اس کی باقاعدہ تدریس ہم لوگوں کو نہیں ملتی۔ ہماری طلب اکثر بلاآور د ہوتی ہے۔ لیکن دکاندار تو ہر وقت گاہک کی آس لگائے بیٹھا رہتا ہے۔ اس لئے اگر گاہک، دکاندار کی وکالت کرے تو ظاہر ہے کہ وہ بہت بری طرح ناکام ہوگا، لیکن دکاندار اگر چاہے تو گاہک کا کیس بہت حد تک صحیح طور پر پیش کر سکتا ہے۔

میری خواہش ہے کہ ’رقص و سرود‘ پھر جاری ہو اور اس کے عنان ادارت صرف اسی طبقے کے ہاتھوں میں ہو جس کی نمائندگی کے لئے اس کا اجراء عمل میں آیا تھا اور راولپنڈی کے علاوہ پاکستان کے دوسرے بڑے شہروں میں بھی طوائفوں کی انجمنیں قائم ہوں تا کہ گاہک اور دکاندار دونوں کا نقطۂ نظر پیش ہوتا رہے اور قانون سازوں سے کوئی حماقت سرزد نہ ہو۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.