گناہ کی رات

گناہ کی رات
by حکیم احمد شجاع
330709گناہ کی راتحکیم احمد شجاع

(۱)

ممتاز اپنے دفتر کے خوبصورت اور آراستہ کمرے میں، ایک نرم نازک اور نیچے صوفے پر بیٹھاتھا، اس کا دایاں ہاتھ، جس میں ایک جلتا ہوا سگریٹ تھا،صوفے کے دائیں بازو کی بلندی پر سہارا لیے ہوئے تھا۔ اس کا بایاں ہاتھ جس کی درمیانی انگلی میں ایک ہیرے کی بیش قیمت انگوٹھی درخشاں تھی،بار بار اس کی پیشانی سےاوپر کی طرف حرکت کرتا اور رہ رہ کے اس کے لمبے اور گھنے بالوں میں چھپ جاتا تھا۔ اس کی آنکھیں سامنے کی دیوار میں گڑی ہوئی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس دیوار میں کوئی مقناطیسی کشش ہے جواس کی نگاہ کو ہٹنے نہیں دیتی، اس کاجسم بظاہر آرام و اطمینان کے مزے لے رہاتھامگر اس کا دماغ ایک مسلسل، ایک مرتعش، ایک متحرک خیال کے ساتھ ساتھ بے قرار تھا۔

وہ شریف تھا، ذہین تھا، عقل مند تھا مگر اس وقت وہ اس رات کی یاد میں محو تھا جس رات کو اس کی شرافت ایک مرگ ناگہاں کا شکار ہوگئی تھی۔ جس رات اس کاذہن ایک خاص نقطۂ خیال کے ارد گرد گھومنے کے سوا، اور ہر ادراک سے قاصر ہوگیا تھا۔ جس رات اس کی عقل خلاف معمول اس بات کے حق میں رائے دے رہی تھی جس کو وہ اس رات سے پہلے نامناسب ،مکروہ اور ناجائز خیال کرتا تھا۔

آہ! وہ رات تھی یا دنیا بھر کے طلسموں کا ایک زندہ مظاہرہ، جس کی ایک ایک ساعت کے ایک ایک غیرممکن التقسیم حصے کے ساتھ اس کی امید، اس کی حسرت، اس کی خوشی کی یاد وابستہ تھی۔ اس نے اس رات اپنی عمر بھر میں پہلی مرتبہ موسیقی کو ایک زندہ عورت کی شکل میں تبدیل ہوتے دیکھا تھا جس کے نغمے کی ہر اٹھتی ہوئی لے ہوا کے ذروں کو حسین بنارہی تھی۔ اس نے اس رات ایک عورت کے پاؤں کی حرکت کو ایک شعرکی کیفیت اختیار کرتے دیکھا تھا جس سے بے جان زمین میں جان پیدا ہوگئی تھی۔

وہ رات ممتاز کے لیے ایک عجیب رات تھی۔ اس رات جو کچھ اس کی آنکھوں نے دیکھا تھا، اس کا ذہن نہ سمجھ سکتا تھا۔ جو کچھ اس کا ذہن محسوس کر رہا تھا اس کی آنکھیں نہ دیکھ سکتی تھیں۔ ایک عورت ایک بے باک کیفیت ۔۔۔ میں انسانی جذبات سے کھیل رہی تھی۔ اس کی نگاہیں دلوں میں امیدیں پیدا کر کرکے ان کو ایک خشمگیں دلوی کی طرح پامال کر رہی تھیں۔ اسی رات کو اس نے دیکھا کہ پارساؤں کی پارسائی، عقل مندوں کی عقل، ایک عورت کے نازوانداز کی قربان گاہ پر مجروح ہوگئی۔ اسی رات کو اس نے مرد کی کمزوری، عورت کی طاقت، ضمیر کی بزدلی اور اخلاق کی شکست کا مشاہدہ کیا۔

رات گو دنیا کے لیے وقت کی غیرمحدود مسافت میں اپنی معمولی منزل طے کرکے ختم ہوگئی مگر ممتاز کے لیے یہ ایک کبھی نہ ختم ہونے والی رات تھی۔ اس وقت بھی وہ اس رات کو اپنے دماغ میں، اپنی آنکھوں میں محسوس کر رہا تھا۔ اس کی زندگی کا ۔۔۔اسی رات تک چل کر رک جاتا تھا۔ اس کی یاد، اس کے سوا اور تمام واقعات کو فراموش کرسکتی تھی۔

اس رات کو گزرے ایک مہینہ ہوچکا تھا۔ اس ایک مہینے میں اس نے دن رات کی ان تھک کوششوں، دولت کے اندھادھند صرف اور اپنے ہمدردوں کے دماغ کی لگاتار کاوشوں سے اس خوبصورت رقاصہ کے گھر تک رسائی حاصل کی۔ آہ!جس گھر کے دروازے ہر دوسرے شخص کے لیے دن رات کھلے رہتے تھے۔ ایک پرفن دماغ کی غباری سے ممتاز کے لیے بند ہوگئے تھے۔ حسن نے عشق کی چنگاری کو ایک روح سوزشعلے میں مشتعل کرنےکے لیے اپنا پرانا محرب اور کامیاب نسخہ استعمال کیا تھا۔

ہرکوشش کی ناکامیابی، ہر امید کی ناکامی نے ممتاز کو پہلے سے زیادہ شائق کردیا۔ آخر کار اس وقت جب زندگی اور موت صرف ایک اقرار یا انکار پر منحصر تھی، عقل اور جنون صرف ایک ہاں اور نا کے درمیان پناہ ڈھونڈھ رہا تھا، اس کی فریاد سنی گئی۔ اس کی کوششیں بارور ہوئیں۔ ہاں اس نے اس وقت دولت کی طاقت کو محسوس کیا۔ اور خدا کا شکر ادا کیا کہ وہ اس قدر دولت مند تھا۔

اس کے بعد اس کی کھوئی ہوئی صحت دوبارہ عود کرآئی۔ اس کو دنیا پھر ہنستی ہوئی نظرآئی۔ اس کو زندگی پھر جینے کے قابل معلوم ہوئی۔ مگر آخرکار اس کا سارا کاروبار ایک مسلسل بے توجہی سے بگڑگیا۔ اس کے بوڑھے باپ، اس کی پیار کرنے والی بیوی، اس کی معصوم بہن کے دل کا آرام اجڑ گیا۔ اب اس کا وقت زیادہ تر اپنے دفتر کے کمرے میں گزرنا تھاجو اس کے گھر سے دور ایک پرفضا مقام پر واقع تھا۔ وہ جب کبھی گھر جاتا تو اس طرح جیسے کوئی اجنبی زیادہ سے زیادہ ایک عارضی مہمان کی حیثیت سے کسی غیر کے مکان پر گھڑی دو گھڑی وقت گزارنے کے لیے جاتا ہے۔

اس کے ضعیف باپ پر فالج گرا۔ وہ ایک دفعہ اس کو دیکھنے کے لیے گیا۔ مگر جب اس نے ایک نقاہت، آزردگی اور افسردگی سے بھری ہوئی آواز کو اس رقاصہ کے خلاف نصیحت کرتے ہوئے سنا جو اب اس کی انتہائی حسرتوں کا آخری مقصد تھی تو وہ بیزار ہوگیا۔ جب ایک پرانے ملازم نے جس نے ممتاز کو گود میں کھلایا تھا، اس کے کانوں تک ڈرتے ڈرتے یہ اطلاع پہنچائی کہ اس کی بیوی دن رات رو رو کر اپنے حسن، اپنی جوانی، اپنی زندگی کو ایک قبل از وقت موت کی آغوش میں سپرد کر رہی ہے تو اس نے ایک فخر، ایک تمسخر سے قہقہہ لگایا اور اپنی آزادی کو ایسی کمزور زنجیروں میں یانہ پاکر بڑی مسرت، بڑی طمانیت کااظہار کیا۔

ممتاز نے سگریٹ کو ایک آخری کش لے کر پھینک دیا اور بائیں ہاتھ سے ایک تپائی پر سے جو صوفے کے قریب بائیں طرف رکھی تھی، ایک گلاس اٹھایا۔ اس میں زعفرانی رنگ کی شراب برف اور سوڈے کے پرجوش بخارات سے دست و گریباں ہو رہی تھی۔ اس نے اس گلاس کو کسی مدت کے پیاسے کی نگاہوں سے دیکھا اور پھر بغیر رکے، بغیر سوچے سمجھے منھ میں الٹا اور حلق سے اتار دیا۔ گویا وہ اتنا بے صبر تھا کہ کام و دہان کی وساطت کو بھی برداشت نہ کرسکتا تھا۔ خدا جانے اس آب آتشیں نے اس کے اندرونی نظام پر کیا اثر کیا کہ اس کی پیاس بجھنے کی جگہ بھڑکی اور اس نے پے درپے گاس کو بھرنا اور اسی طرح خالی کرنا شروع کردیا۔

اب میز پر ایک خالی بوتل نظر آرہی تھی اور ایک بھرا ہوا گلاس جو اس بوتل کا آخری سرمایہ تھا، اس کے ہاتھ میں تھا۔ مگر اب اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ اس کا چہرہ سرخ تھا۔ اس کی آنکھ کے سرخ ڈورے آگ کی روشن تحریریں بن کر پتلیوں کی سطح سے ابھرے ابھرے دکھائی دیتے تھے۔ اس کی سانس میں ایک غیرمعمولی گرمی محسوس ہو رہی تھی۔ بے شمار جلے ہوئے سگریٹوں کا ایک انبار اس کے خاکسترداں میں جمع ہوگیا تھا۔ وہ اٹھا اور بجلی کے پنکھے کی کارگزاری سے غیرمطمئن ہوکر اس کی رفتار میں اور زیادہ تیزی پیدا کرنے کے لیے دیوار پر لگے ہوئے میٹر کی طرف بڑھا۔ وہ اٹھنے کو تو اٹھ چکا تھا مگر اس کے پاؤں کی لغزش اس کی عصبی کمزوری کاپتہ دے رہی تھی۔ وہ ادھر ادھر رکھی ہوئی کرسیوں، تپائیوں اور الماریوں کا سہارا لے کراپنی نشست تک پہنچنے کے لیے چلا۔ مگر اس سے پیشترکہ وہ اس جگہ تک پہنچے، اس کی آنکھ ایک قدآدم آئینہ پر رکی جو اس کمرے کے آتش دان کی دیوار کے ساتھ آویزاں تھا۔

اس نے ذرا بڑھ کر اپنے آپ کو اس آئینہ میں دیکھنا شروع کیا۔ اس نے اپنے آپ کو پہچاننے میں ضرورت سے زیادہ دیر لگائی۔ وہ سنبھل کر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہاتھا۔ ا س کی جدوجہد اپنی آنکھوں کو آئینہ کی شفاف سطح کے کسی ایک مرکز پر جمانے کی سعی میں سرگرم تھی۔ وہ اپنے دماغ کو آئینہ میں اپنے عکس کی موجودگی کا یقین دلانے پر اصرار کر رہاتھا۔ پھر جب اس نے اپنے آپ کو پہچان لیا تو اس کے چہرے پر ایک مغرور فاتح کی سی، ایک حسین عورت کی سی طمانیت بخش مسرت ظاہر ہوئی۔ آج اس نے اپنے لبا س کے مختلف اجزا کو ایک پورا دن صرف کرکے منٹکب کیا تھا۔اور اس وقت اپنےجسم کے تناسب پر اس دن بھر کی محنت کو بارور ہوتے دیکھ کر وہ بہت مسرور ہوا۔ پھر کچھ سوچ کر اپنی گردن پھرائی اور شراب کی خالی بوتل کو دیکھا۔ پھر آئینہ کی طرف متوجہ ہوا۔ وہ اس چیز کو جس سے بوتل خالی ہوچکی تھی اپنی آنکھوں کے عکس کی گہرائی میں تلاش کر رہا تھا۔ اس گم گشتہ سیلاب آتشیں کو اپنی آنکھوں میں ایک زندہ کیفیت میں موجزن پاکر اس نے اطمینان، امید زندگی کی ایک سانس لی اور پھر اپنی حرکت کو اپنی نشست کی طرف جاری رکتے ہوئے معمول سے زیادہ زور سے اپنے ملازم کو آواز دی۔

ملازم بڑی تیزی سے کمرے میں داخل ہوا اور ابھی اس نے مشکل سے ’’جی سرکار‘‘ کہا ہی تھا کہ ممتاز نے اس کو موٹر تیار کرنے کے لیے حکم دیا۔ ابھی ملازم نے پیٹھ ہی پھرائی تھی کہ اس پر ’’جلدی بہت جلدی‘‘ کا تحکمانہ تازیانہ پڑا۔ جس کام کےلیے وہ آج صبح سے تیاریاں کر رہاتھا۔ اس کو تکمیل تک پہنچانے کا وقت آپہنچا تھا۔ اس کے سامنے گوشدانی پر رکھا ہوا کلاک آٹھ بجارہا تھا۔ اور اب وہ ذرا سی دیر کا متحمل نہ ہوسکتا تھا۔ آہ یہ وقت،یہ رات اسے کتنی محنتوں، کتنی کاوشوں، کتنی حسرتوں کے بعد میسر آئی تھی۔ اس نے اس رات کو اپنے موعودہ وقت سے پہلے لانے کے لیے کتنی پر اضطراب، پرآرزو، اور پرآلام کوششیں کی تھیں۔ آج کے سورج کو اپنے ہی دوران حیات میں ڈوبتے ہوئے دیکھنے کا شوق اس کی زندگی کے کتنےدنوں کو تاریک سے تاریک رات سے زیادہ تاریک بناچکا تھا۔

یہ وہی رات تھی جس کی آرزو کی خاکستر میں ہزاروں عشاق دفن ہوگیے۔ یہ وہی رات تھی جس کے حصول کی تمنا عشق کی تربیت کا موجب ہوتی ہے۔ یہ وہی رات تھی جس کاشوق کڑی سے کڑی منزل کوآن واحد میں طے اور مشکل سے مشکل مہم کو ایک اشارے میں سرکرادیتا ہے۔ یہ وہی رات تھی جس کی امید زندگی کی تلخیوں کو شیریں، درد ہجر کی مصیبتوں کو خوبصورت، شوق کی ناکامیوں کو خوشگوار بنادیتی ہے۔ یہ وہی رات تھی جو خداوندی قانون کی پابندیوں کے ساتھ قدرت کا بہترین تحفہ، ایک عورت اور مرد کی محبت کا خوشترین ثمر، ارتباط جسمانی کا اعلیٰ ترین معراج ہے۔ یہ وہی رات تھی جو حکم جوار کے بغیر شیطان کا سب سے مہیب آلہ، اخلاقی ذلت کی سب سے اسفل گہرائی، عورت اور مرد کی کمزوری کی سب سےبڑی دلیل ہے۔

آج ممتاز اسی محنت کے زندہ اور متحرک بت کو اپنے پہلو میں محسوس کرنے، اپنے شوق کے پیکر بے قرار کو اپنی آنکھوں سےدیکھنے اور اس جذبے کو تکمیل تک پہنچانے جارہا تھا، جس نے اس کی نظر میں دنیا کے سب سے بڑے گناہ کو ثواب، سب سے بڑی برائی کوایک نیکی، سب سے بڑی اخلاقی کمزوری کو ایک اخلاقی جرأت کر دکھایا تھا۔

(۲)

وہ موٹر کے انتظار میں اپنے مخملی دیوان پر جس کو اس نے ترکی وضع کی تقلید میں اپنےکمرے کی سب سے حسین زینت بنارکھا تھا، لیٹ گیا۔ اب وہ اس بڑی کشمکش کے بعد جس سے وہ تھک گیا تھا، ذرا آرام کرنا چاہتا تھا۔ یہ چند لمحوں کی فرصت غنیمت تھی۔ اس نے اپنے پاؤں سامنے کی کرسی پر رکھ کے اپنے سر کو ایک نرم اور روئیں دار مخمل کے گاؤ تکیےکا سہارا دیا۔ رونے کے بعد بچہ بہت جلد سوجاتا ہے۔ جسمانی درد کے بعد دماغ بہت جلد تسکین پاتا ہے۔ طوفان کے بعد سمندر کی سطح پر غیر معمولی سکون نظر آتا ہے۔ اس کا دماغ بہت سی تکلیفیوں سے تھک چکا تھا۔ اس کاجسم آج دن بھر کی محنت سے تنگ آچکا تھا۔ اس کے اعصاب شراب کےجوش اور حدت سے اپنی انتہائی کشاکش کرچکے تھے۔ اس نے اس وقت یہ دیوان معمول سے زیادہ آرام دہ، گاؤ تکیہ ضرورت سے زیادہ نرم،یہ چند لمحے بہت سے دنوں سے زیادہ کارآمد محسوس کیے۔ وہ اپنی آنکھیں بند کرکے دل ہی دل میں دیوان، گاؤتکیہ اور مخمل کے ایجاد کرنے والے دماغوں کی ذہانت کی تعریف کر رہا تھا۔ اس ملازم کی سستی کو جسے موٹر تیار کرنے کے لیے حکم دیا گیا تھا کچھ زیادہ معتوب، سمجھنے کے لیے بہانے سوچ رہا تھا۔

اتنے میں اس نے ملازم کو دروازے سے داخل ہوتے ہوئے دیکھا اور اس کے کانوں نے ’’سرکار موٹر تیار ہے‘‘ کی آواز سنی۔ وہ جلدی سے اٹھااور دروازے سے باہر نکل کر موٹر پر سوا ر ہوگیا۔ اس وقت اس کی عجیب حالت تھی۔ اس نے محسوس تک نہ کیا کہ اس کے سر پر ٹوپی اور ہاتھ میں لکڑی ہے یا نہیں، یہ ایک خلاف معمول بات تھی۔ کیونکہ آج تک ان دو چیزوں کے بغیر وہ کبھی گھر سے باہر نہ نکلا تھا۔ اس کو اس امر کا احساس ضرور ہوا کہ شاید آج وہ ملازم کو اپنے سامنے سے ہٹائے یا بند دروازے کو کھولے بغیر ان میں سے گزر گیا۔ آج ہر ایک چیز نے کچھ ایسی شفاف آبی بخارات کی سی لطیف کیفیت اختیار کرلی تھی۔

موٹر منزل مقصود پر پہنچ گیا۔ مگر آج خدا جانے کیا بات تھی کہ وقت اور فاصلہ اپنے فطری خواص کےاستعمال سے عاجز تھا۔ وہ یہ نہ جان سکا کہ وہ کب چلا اور کب پہنچا۔ یا یہ راستہ کیسے طے ہوا۔ اس کو موٹر پربیٹھے اور پھر موٹر سے اترنے کے سوا کچھ یاد نہ رہا۔ کیا ان دونوں حرکتوں کے درمیان کوئی فاصلہ نہ تھا، کچھ وقت صرف نہ ہوا تھا۔ یا اس کا دماغ اس وقت فاصلہ اور وقت کی سی کثیف اور مادی اشیاء کے نقوش کو اخذ کرنےسے قاصر تھا؟

وہ موٹر سے اترا۔ اور ایک بہت سی روشنیوں سے روشن بازار میں تھوڑی دور چل کر ایک خوبصورت اور وسیع مکان کے دروازے پر رکا۔ وہ دروازے کے اندر پاؤں رکھنے ہی کو تھاکہ کسی آواز نےجو اس کے دماغ سے، با دل سے یا جسم کے ہر روئیں روئیں سے نکلی، اس کے متحرک جسم کو ایک لمحہ کے لیے ساکن کردیا۔ انسان کی فطری نیکی نے اپنی موت سے پہلے زندگی کے لیے آخری کشمکش کی۔ اخلاق نے اپنے وقار کی حفاظت کے لیے آخری تدبیر کی، حو اس نے اپنی صحت کا آخری ثبوت دیا، ضمیر نےاس راستہ کو ٹوٹتے دیکھ کر جو بندے کی گردن کو مالک کی مرضی کے ساتھ وابستہ رکھتا تھا، اس کو بچانے کے لیے آخری جدوجہد کی، مجروح شرافت نے آخری سانس لی، وضعداری سربازار ،بے شمار دیکھنے والوں کی نگاہوں کے سامنے ذلیل ہوکر تڑپی۔ اس کے نظام عصبی نے، اس کے قوائے جسمانی نے ایک زلزلہ محسوس کیا۔ اس کے دماغ کی سلطنت میں بغاوت ہوگئی۔ ممتاز نے سب کچھ دیکھا سب کچھ سنا اور پھر اپنی آنکھوں پر خواہشوں کی پٹی باندھ کر، اپنے کانوں میں ہوس کا پگھلا ہوا سیسہ ڈال کر، اپنے ضمیر کا، گناہ کے آہنی پنجہ سے گلاگھونٹ کر، ایک جست بھری۔ اور اس برقی روشنی سے روشن، موسیقی کے نغموں سے لبریز، حسن کے کرشموں سے مسحور مکان کے اندر داخل ہوگیا۔

اس مکان کی منور و درخشاں فضا میں ایک برقی روشنی سے زیادہ روشن بجلی چمکی۔ ممتاز کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ اس نے اپنے آپ کو یک لخت کسی بڑے تصادم سے رکتے ہوئے یا شایداس کے زور اور رعب سے مرعوب ہوکر ایک قدم پیچھے ہٹ کر سنبھلتے ہوئے محسوس کیا۔ایک حسن سے زیادہ حسین، نور سے زیادہ منور، خوشبو سے زیادہ معطر چہرہ اس کے حسرت مندلبوں کے قریب ایک خطرناک قربت پر آکے رک گیا تھا۔ سفید رنگ کے نازک، شفاف اور نرم ریشم کی باریک تہ میں سے جھلملاتے ہوئے دو بازو جن پر سیاہ اور سنہری رنگ کی آمیزش سے بکھرے ہوئے لمبے اور پرپیچ بال بےقرار تھے، اس کی آغوش میں الجھ گیے تھے۔ اور دو روشن، بڑی اور نیم وا آنکھیں مسکرا مسکراکر اس کی آنکھوں سے ایک خاموش مگر عام فہم زبان میں کچھ ایسی باتیں کر رہی تھیں جن کو اس کا دل سن سن کر سمجھ سمجھ کر مسرور ہو رہا تھا۔

انہی آنکھوں کے پر کیف جذب سے کھنچ کر، انہیں بازوؤں کے الجھے ہوئے جال میں پھنس کر، انہیں باتوں کی کشش سے متاثر ہوکر، وہ ایک کمرے میں جس کے کھلے ہوئے دروازے درمیانی صحن کے دائیں کونے میں لاکھوں دلربائیوں کے جادو جگاکر ہرتشنہ لب ارمان کو تکمیل حسرت کی دعوت دے رہے تھے ،پہنچ گیا۔

اس رات کے بعد کئی راتیں آئیں اور گزر گئیں، کئی دن پیدا ہو ہو کر کم عدم میں چھپ گئے۔ دن مہینو ں میں، مہینے برسوں میں تبدیل ہوگیے، بچے جوان، جوان بوڑھے ہوگیے۔

زمانے کے ساتھ اہل زمانہ کے خیالات، وقت کے ساتھ لوگوں کی صفات تبدیل ہوگئیں۔ پیدا ہوہو کے فنا ہونے والی ،فنا ہوہو کے زندہ ہونے والی، دنیا کے ساتھ سلسلہ حیات و ممات بدل گیا۔ مگر ممتاز کے جذبات میں کوئی تبدیلی، کوئی تغیر رونما نہ ہوا۔ وہ اسی طرح اس ساحرہ کے سحر سے مسحور، اس قاہرہ کے حکم سے مجبور ہوکر اپنی جوانی، اپنی صحت، اپنی دولت، حسن و ناز کی چوکھٹ پر بھینٹ چڑھاتا رہا۔

اس عرصہ میں ایسا زمانہ بھی آیا جب ممتاز نے دنوں تک، مہینوں تک اس مکان کی اندرونی دنیا کے سوائے بیرونی دنیا کی کسی چیز کو نہ دیکھا۔ کیا اس نے ساری دنیا کا ماحصل اس محدود چاردیواری کے اندر حاصل کرلیا تھا۔ یا دنیا نے اس کو اپنی وسیع نعمتوں کے خلاف بغاوت کرتے دیکھ کر اس زندن میں محبوس کردیا تھا۔

اس تمام عرصہ میں وہ اگر سوتا تو صرف اس لیے کہ وہ غارت گردین و ایمان اس کو خواب میں نظر آئے۔ اگر بیدار ہوتا تو محض اس لیے کہ اس بیدادگر کو اپنی آنکھوں کے سامنے مشق ستم کرتے دیکھے۔ جب وہ کسی بات پر بگڑ جاتی تو وہ اپنے دل کی حسرتوں کو، اپنی جوانی کے ولولوں کو ،اپنی زندگی کی امیدوں کو آنسو کے ایک قطرے میں منجمد کرکے اس کے قدموں پر گرادیتا۔ جب وہ من جاتی تو اپنےشوق کو، اپنے اضطراب کو، اپنی خودفراموش عقیدت کو، اپنے سر کی ایک جنبش میں متشکل کرکے اس کے پاؤں پر نچھاور کردیتا۔

ایک شب وہ اس حسن فروش کی آغوش میں بے خبر پڑا تھا کہ اس نے اپنی بیوی کی ناگہانی موت کی خبر سنی۔ اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور اس کو جس نے مرنے والی کے جائز حق کو ایک جابر ملک گیر کی طرح غصب کرلیا تھا، فاتحانہ مسرت سے مسرور دیکھ کر مطمئن ہوگیا۔

ایک دن جب وہ اس مکان کی ہر پابندی سے بے پروا آزادی سے بیزار ہوکر اس عورت کے لیے، جس پر اب وہ ایک واحد مالک کی حیثیت سے قبضہ کرنے کا متمنی تھا، جس کو اب وہ اپنے سوا کسی اور کی آنکھوں سے دیکھا جانا بھی پسند نہ کرتا تھا، ایک علیحدہ عشرت منزل بنانے کی فکر میں تھا۔ اس کے لیے بہت سے نقشوں پر جو اس کے دماغ کے منظرگاہ پر باری باری منقش ہو ہو کر محو ہوجاتے تھے، غور کر رہا تھا اور ان نعمتوں کی تکمیل کے لیے اپنے محاصل کو ناکافی پاکر خیال ہی خیال میں اپنے باپ کی جمع کی ہوئی دولت کو ایک خودغرض لالچی کی نظروں سے دیکھ رہاتھا، اس نے ایک بند اور سربمہر لفافے کو کھول کر جس کو ابھی ابھی ڈاکیے نے اس کے ہاتھ میں دے کر رسید حاصل کی تھی، اپنی آنکھوں سے یہ پڑھا کہ اس کے باپ نے اس کی روزافزوں بدکاریوں سے تنگ آکر، اس کو ایک دن بھی پہلے سے بہتر نہ پاکر اپنی جائداد سے محروم کردیا ہے۔ اس کے دماغ پر ایک دھکا سالگا مگر جب اس نے آنکھیں اٹھاکر اس عورت کو جس کے استعمال کے لیے وہ اس دولت کو تیار کرتا تھا، اسی طرح مسرور، اسی طرح مطمئن، اسی طرح اپنے قبضہ میں پایا تو وہ ایک بوڑھے شخص کے کمزور ارادے پر، ایک باپ کے بہت جلد فروہوجانے والے غصہ پر ہنسا اور باتوں میں مشغول ہوگیا۔

ابھی اس کے پاس اپنی محنت سے کمائی ہوئی، اپنے مصارف سے بچاکر جمع کی ہوئی دولت تھی۔ اگرچہ وہ کئی بار یہ سمجھنے کی بے کار کوشش کرنا چاہتا تھا کہ یہ دولت بہت دیر تک اس کے موجودہ اخراجات کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ ابھی اس کو اس بات کی تسلی تھی کہ اس کا مایوس باپ اس کے لیے اس خوبصورت اور آراستہ مکان کے دروازے بند نہیں کرسکتا جس کو وہ ہمیشہ ’’میرا خوبصورت دفتر‘‘ کہہ کر پکارتا تھا اور جس کو اس نےاپنے روپے سے اپنے نام پر خریدا تھا۔ اس کو بیوی کی موت، دولت کے نقصان، باپ کے غصے، بہن کی مایوسی کا کچھ احساس نہ ہوا۔ کیونکہ وہ عورت جس کی محبت سے بھری ہوئی ایک نظر میں وہ اپنےدل کی تمام جذبات کو مرکوز کیے ہوئے تھا۔ اس پر مہربان تھی، اس کے پہلو میں تھی، اس کی تھی، وہ دنیا کے تمام رشتوں کو، تمام تعلقات کو، تمام چیزوں کو صرف اسی ایک عورت کی وساطت سے محسوس کرسکتا تھا۔ وہ عورت ایک رنگین مجسمہ تھی۔ جس نے ممتاز کی نگاہ میں دنیا کی ہر چیز کو اپنے ہی رنگ میں رنگ دیا تھا۔

(۳)

آخر ایک دن وہ بھی آیا جو قانون فطرت کے ہر گنہگار کے لیے موت سے زیادہ یقینی ہے۔ جب اس کا تمام سرمایہ توقعات سے بہت پہلے ختم ہوگیا۔ جب اس کے لیے اس کے ’’خوبصورت دفتر‘‘ کے دروازے اگر باپ کے غصے نے نہیں تو قرض خواہوں کی قرقی نےبند کردیے۔ آہ! اس دن کو اگر آنا ہی تھا تو ذرا پہلے آیا ہوتا۔ جب ممتاز تندرست تھا، جب اس کا دماغ صحیح تھا، جب وہ کام کرکے دولت کمانے کی قابلیت رکھتا تھا، مگر اس وقت وہ شہر کی سب سے زیادہ غریب پرور سرائے کے ایک تنگ و تار کمرے میں ایک شکستہ چارپائی پر لیٹا تھا۔ شراب نے، جس کی کثرت اسی رقاصہ کی کوششوں کی شرمندہ احساں تھی۔ پانی، چائے، طعام اور ہر قسم کی خوراک کی جس کا وہ عادی تھا، جگہ لے لی تھی۔ دختررز نے ممتازکو اپنی اداؤں کا اس قدر متوالا بنادیا تھا کہ وہ پیاس، بھوک، درد،غرض قوائے جسمانی کے ہر مطالبے کاعلاج اسی کی عشوہ گریوں سے کرتا تھا اور اب جب کہ اس کے پاس اس قیمت کے بغیر نہ ہاتھ آنے والے پانی کو خریدنے کے لیے حبہ تک نہ تھا، اب جب کہ اعصابی نسخ کے دردانگیز دردوں کی شدت کو مٹانےکے لیے اس کو اس کی پہلے سے زیادہ ضرورت تھی، وہ اس کی غیرموجودگی میں درد سے کراہ رہا تھا۔

اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ مگر وہ اردگرد کے منظر کو سمجھنے سے قاصر تھیں، وہ رات کو اسی کمرے میں سویا تھا جس میں آج سے بارہ سال پہلے ایک رات کو وہ بے شمار امیدوں کو آغوش میں لیے داخل ہوا تھا۔ مگر آج صبح بیدار ہوکر اس نے آپ کو اس سرائے کے کمرے میں اس بے کسی اور بے بسی کی حالت میں دیکھا۔ اس نے کچھ سمجھنے کی کوشش کی مگر جب اس کو اس خوب صورت رقاصہ کی وفا کاخیال آیا جس کے پاؤں کی ایک حرکت نے بارہ سال گزرے ،اس کی آیندہ زندگی کا دستورالعمل تحریر کردیا تھا۔ اور جو ابھی ابھی یعنی اس وقت جس وقت کی یاد اس کے مختل دماغ میں سب سے زیادہ محفوظ تھی، اس کو پنکھا کرکرکے پیار سے بھری ہوئی تسلی دے دے کر سلانےکی کوشش کر رہی تھی تو وہ یہ تمام درد وتکلیف، یہ تمام احتیاج و افلاس ،یہ تمام مایوسی و ذلت بھول گیا۔

اس نے کسی قدر حیرت، کسی قدر مسرت اورکسی قدر نفرت سے ایک بند لفافے کو دیکھا جو اس کے دائیں ہاتھ کے قریب اس کی آنکھوں کے سامنے ایک نمایاں جگہ پر رکھا تھا۔ حیرت اس لیے کہ آج اتنے طویل عرصہ کے بعد ایک خط کی موجودگی نے اس کو اس امر کاپتہ دیا کہ وہ اب تک اسی دنیا میں زندہ ہے جس کے رہنے والوں کے ساتھ اس کو کبھی تعلق تھا۔ کیا کسی دل میں اس کی یاد اب تک باقی تھی کہ اس کا اظہار اس خاموش طریق سے کیا گیا تھا۔ مسرت اس لیے کہ شاید باپ نے بیٹے کی مصیبتوں کا حال سن کر اپنے فطری جذبے سے کام لیا ہے اور اس دولت کو جسے اس کے غصے نے چھین لیا تھا،اس کی شفقت نے واپس کردیا ہے۔ نفرت اس لیے کہ آہ !یہ دولت اس وقت مل رہی ہے جب وہ اس کو استعمال کرکے حصول لذات کی قابلیت نہیں رکھتا۔

اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس لفافےکو اٹھایا۔ ہاتھوں سے زیادہ کانپتی ہوئی انگلیوں سےاسے کھولا اور انگلیوں سے زیادہ کانپتی ہوئی نظروں سے اسے پڑھنا شروع کیا۔

’’میں صرف دولت کو پیار کرتی ہوں۔ جب تک تمہارے پاس دولت تھی، تمہاری تھی اور اب ان کی خاطر جن کے پاس دولت ہے تمہیں ہمیشہ کے لیے چھوڑتی ہوں۔‘‘

جو دماغ بیوی کی موت، باپ کی مایوسی، دولت کے نقصان سے نہ گھبرایا تھا۔ اس عورت کی دائمی جدائی کی خبر سن کر جس کی موجودگی میں دنیا بھر کی تکلیفیں راحتوں سے زیادہ دل پسند تھیں،، ٹکرے ٹکڑے ہوگیا۔ اس نے ایک چیخ ماری۔ آنکھیں کھول دیں اور ایک انتہائی اضطراب سے مضطرب ہوکر کچھ سمجھنےکی کوشش کی۔اس کی آنکھوں سےایک ہولناک خواب کی جانکاہ کاوش ظاہر تھی۔ اس نے آنکھوں کو اور زیادہ کھول کر کلاک کو دیکھا۔ گیارہ بج رہے تھے۔ ملازم نے ذرا آگے برھ کر پھر یاد دلایا، ’’سرکار موٹر تیار ہے۔‘‘

آہ! ان تین گھنٹوں کی غفلت میں اس نے کیا کیا دیکھ لیا۔ کیا یہ سب کچھ ایک خواب تھا۔ اس نےاپنے آرام دہ دیوان کو، اپنے دفتر کے آراستہ کمرے کو،اپنے ملازم کی مودب یاددہانی کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے دماغ پر زور دیا۔۔۔اور پھر کسی جائے نماز کی ضرورت کو محسوس کرنے کے بغیر، کسی مسجد کو تلاش کرنے کے بغیر اس نے اسی کمرے کے فرش پر گر کر سرِسجود کو اس فیاض درگاہ پر جھکا دیا جس پر سرسجود خم کرنے والے کبھی ناامید نہیں رہتے۔ اس کی آنکھوں سے شکریہ اور احسان مندی سے بھرے ہوئے دو بڑے بڑے آنسو نکلے۔

وہ اٹھا، بہت سنجیدگی سے اپنی ٹوپی سر پر رکھی، لکڑی ہاتھ میں لی اور دروازے سے نکل کر موٹر پر سوار ہوگیا۔ جب موٹر ڈرائیور نے منتظر اور متجسس نگاہوں سے منزل مقصود کا پتہ دریافت کرنے کے لیے اس کی طرف دیکھا تو اس نے صرف یہی کہا،’’گھر چلو، جلدی بہت جلدی۔‘‘ آج وہ پورے ایک مہینے کے بعد ایک افسردہ باپ، ایک مایوس بہن،ایک منتظر بیوی کے پاس جارہا تھا۔ وہ گھر میں داخل ہوا، اس کی رفتار سے کچھ پریشانی اور بہت زیادہ خوشی ظاہر تھی۔ اندر جاتے ہی اس نےاپنی بیوی کو جو شاید اس وقت بھی اسی کے انتظار میں بیدار اور اسی کی یاد میں اشکبار تھی، سینہ سے لپٹالیا۔ آنسو بہ بہ کر گناہ کے داغوں اور دل کے شکووں کو دھو رہے تھے۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.