گنبد مدفن ہے یا ہے آسماں بالائے سر

گنبد مدفن ہے یا ہے آسماں بالائے سر
by ریاض خیرآبادی

گنبد مدفن ہے یا ہے آسماں بالائے سر
یہ مکیں رکھتے ہیں سب اپنے مکاں بالائے سر

یوں لئے ہوں حشر میں بار گراں بالائے سر
دوش پر خم ہے گنہ کی گٹھریاں بالائے سر

چھوٹی سی کشتی بنا ہے آسماں بالائے سر
سیل اشک اس طرح چشم خوں فشاں بالائے سر

زیر مسجد مے کدہ میں میکدے میں مست خواب
چونک اٹھا جب دی موذن نے اذاں بالائے سر

ہم ہیں سوئے سایۂ گل میں نہیں اتنا خیال
اے عنادل اس طرح شور فغاں بالائے سر

نخل گل کی طرح دیوانوں سے بھی مانوس ہیں
لیتے ہیں بلبل جگہ اے باغباں بالائے سر

یہ نرالی تیری خلقت شمع اس پر حسن بھی
ہم نے دیکھی ایک تیری ہی زباں بالائے سر

خوش کیا یوں باغ میں لا کر مجھے صیاد نے
شاخ کے نیچے قفس ہے آشیاں بالائے سر

بیچتے پھرتے ہیں مے ہم اس طرح رستے گلی
جائے خم چھوٹی سی ہے مے کی دکاں بالائے سر

رحم کر مالک کہ میں دو دو فرشتے بھی لدے
اور پھر عصیاں کا بھی بار گراں بالائے سر

پیچھے پیچھے کارواں کے ہم تھکے ماندے ہیں یوں
پاؤں میں چھالے ہیں گرد کارواں بالائے سر

پاؤں کے نیچے سے نکلی جاتی ہے یا رب زمیں
کھا رہے ہیں چکر اتنے آسماں بالائے سر

میں وہ ہوں محشر کے پیاسوں کو پلاؤں تو سہی
حوض کوثر ہوگا اے پیر مغاں بالائے سر

آتش رنگ حنا و زلف پیچاں دیکھیے
آگ تلووں میں لگی نکلا دھواں بالائے سر

لینے جاتا ہے حرم سے کیا کہیں تم کو ریاضؔ
طاق پر رکھی ہے بوتل مہرباں بالائے سر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse